اسلام آباد: (دنیا نیوز) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن کی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ عباس شاہ نے پی ٹی آئی رؤف حسن و دیگرکی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی ، پی ٹی آئی وکیل علی بخاری و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ اور تفتیشی افسر بھی ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ احمد وقاص جنجوعہ کے انکشاف پر رؤف حسن کے خلاف مقدمہ درج ہوا، مقدمے میں نامزد 8 ملزمان تنخواہ لینے والے ملازم ہیں ، ان 8 ملزمان کا رؤف حسن سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے ، ملزمان میں کچھ نائب قاصد، ڈیسک آپریٹر، ریسیپشنسٹ وغیرہ ہیں ، ان ملازمین نے ملک کا کیا نقصان پہنچایا، ان کا قصور یہ ہے کہ وہ نوکری کرتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ الزام ہے کہ رؤف حسن نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا الگ سیل بنایا ہوا ہے، یہ بھی الزام ہے کہ رؤف حسن کی ایما پر سوشل میڈیا پر ریاست مخالف کمپین چلائی جاتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ چوروں کو چور نہ کہا جائے، رؤف حسن اور دیگر پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، بندہ پکڑ کر ایف آئی آر درج کی جارہی ہے ، ایف آئی آر میں تو سیکشن 9 کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔
علی بخاری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس ایف آئی آر میں بے ترتیب الزامات لگائے گئے ہیں ، عدالت ضمانت دے سکتی یا مقدمے سے ڈسچارج کرسکتی ہے ، علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9 ، 10 اور 11 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی آر میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا کہ ملزمان نے کیا جرم کیا ہے۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9،10اور 11کے حوالے سے جسٹس بابر ستار کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا کہ جتنا عرصہ ملزمان گرفتار رہیں گے وہ آئین کے خلاف ہوگا ، اعظم سواتی ایک ٹویٹ کرنے کے کیس میں گرفتار ہوئے ، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ ٹویٹ کردیا تب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کرلی۔
اسی کے ساتھ رؤف حسن اور دیگر کی ضمانت منظوری پرعلی بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کرلیے۔
بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ 14 ملزمان میں سے 12 ملزمان گرفتار ہیں، 2 خواتین ہونے کی وجہ سے ضمانت پر ہیں، اس کیس میں چار ٹیکنیکل رپورٹس موجود ہیں، رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد واٹس ایپ گروپس چل رہے جن سے اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹوئٹس کے ٹرانسکرپٹ پڑھے۔
ان کا کہنا تھا کہ رؤف حسن جو بات کرتے ہیں ان کی بات سے بیانیہ بنایا جاتا ہے ، بھارت کی بات کرکے بیانیہ بنایا جاتا ہے ، خونی انقلاب کا بیانیہ بنایا گیا، مختلف فرقہ واریت والی کمپین چلائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ راہول رائے بھارتی ایجنسی را کا فرنٹ مین ہے ، ملزم لیاقت نے بی ایل ایف کی چیزوں کا پروپیگنڈا بنایا ہے ، ڈیجیٹل ٹیم میں پاکستانی ، انڈین اور دیگر غیر ملکی شامل ہیں۔
اس موقع پر علی بخاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹویٹس کا ذکر کیا اس سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ رؤف حسن ترجمان پی ٹی آئی میڈیا کوآرڈی نیٹر نہیں ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے روؤف حسن اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعدازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن کی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔