اسلام آباد : (دنیانیوز/ویب ڈیسک ) مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیاں اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے کیس میں سپریم کورٹ نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو توہین عدالت کی کارروائی سے بری کر دیا۔
مارگلہ ہلزنیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں اور ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے کی جہاں سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل ساہی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل ساہی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نا آپ پر فرد جرم عائد کریں، سچ بتائیں وائلڈ لائف محکمہ کے نوٹیفکیشن کے پیچھے کون ہے؟ کس کے کہنے پر نوٹیفکیشن جاری ہوا؟ اس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا میرے علم میں نہیں، چیئرمین وائلڈ لائف کی تبدیلی کے احکامات وزیراعظم نے جاری کیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری کابینہ نے وزیراعظم پرالزام لگایا ، سیکرٹری کابینہ نے بیان واپس نہ لیا یا بات سچ نہ ہوئی تو نتائج بھگتنا ہونگے، طاقتور شخصیات نے اپنی مرضی سے کام کروائے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اسلام آباد کی سب سے قیمتی جگہ کونسی ہے؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ قیمتی جگہ شاید ون کانسٹیٹیوشن ایونیو ہوگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلڈنگ کی بات نہیں کر رہے جگہ کا پوچھ رہا ہوں، چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں سب سے مہنگی جگہ ای سیکٹر ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپکو پتا ہے ای سیکٹر کس نے بنوایا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے اس بارے علم نہیں۔
وکیل عمر گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کا ای سیکٹر ضیا الحق کے دور میں بنوایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ جی بالکل ضیا الحق کے حکم پر ای سیکٹر بنایا گیا، مارگلہ ہلز کے سامنے ہونے کی وجہ سے ای سیکٹر سب سے مہنگا ہے، اوپر سے حکم آیا ضیا الحق کا تو کسی نے آگے سے اعتراض نہیں کیا ہوگا۔
کیس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کو منتقل کرنے میں قواعد کو نظرانداز کیا گیا، اٹارنی جنرل کے مطابق وائلڈ لائف کی منتقلی اور چیئرپرسن کو ہٹانے کے نوٹیفکیشن واپس ہوچکے، تحریری طور پر بتایا جائے کہ وائلڈ لائف وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کے پیچھے کیا سوچ تھی، کسی حکومتی ڈویژن میں تبدیلی قانون کے مطابق تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد ہونی چاہیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 190 ملین پاؤنڈز کیس کا تذکرہ بھی ہوا ، جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 190 ملین پاؤنڈز والوں سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا،اس وقت کی حکومت نے برطانیہ سے ملنے والے پیسے طاقتور شخص کو دے دیئے، ایک تو چوری کرو ، پھر حکومت بھی اس چوری پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری کابینہ سے سوال کیا آپ کے بھائی لقمان علی افضل کدھر ہیں؟ سیکرٹری کابینہ نے جواب دیا نہیں معلوم وہ کدھر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ لقمان علی افضل بتائیں کیوں نہ انکے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے، بادی النظر میں لقمان علی افضل نے توہین عدالت کی ہے، لقمان علی افضل نے مارگلہ ہلز سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
عدالت نے کہا کہ لقمان علی افضل نے عدالتی فیصلے کے بعد ججز کیخلاف پروپیگنڈا کیا، لقمان علی افضل میڈیا پر توہین عدالت کا مرتکب ہورہا ہے، سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔