اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی الیکشن نظر ثانی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنا تاخیری حربہ ہے، کیس ملتوی کر دیتے ہیں مگر سچ تو بولا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نظرثانی کیس کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا جس پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کیا جبکہ اکبر ایس بابر عدالت میں پیش ہوئے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ حامد خان کی التوا کی درخواست آئی ہے۔
چیف جسٹس نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ التوا کی درخواست کا پیراگراف نمبر دو پڑھیں جس پر حامد خان کی فیملی مصروفیت کے بارے میں پیراگراف پڑھا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو کسی ناول التوا کی درخواست ہے اس سے پہلے اس نوعیت کی درخواست نہیں دیکھی، یہ کیس 29 مئی کی مجوزہ کاز لسٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہونا تھا، ایڈووکیٹ علی ظفر کی چار جون تک عمومی التوا کی درخواست تھی، بنچ میں شامل ایک ممبر کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، ڈھولچیوں نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کو بلے کے نشان کا کیس بنا دیا، ڈھولچی پہلے عدالتی فیصلے کو پڑھیں پھر تنقید کریں، باہر جاکر پراپیگنڈا کریں لیکن عدالت نہ آئیں یہ نامناسب ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے آج تک ایسی درخواست نہیں دیکھی جس میں فیملی مصروفیت کے سبب التوا مانگا گیا ہو، فوتگی یا خرابی صحت کے سبب التوا ضرور مانگا جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اس کیس میں تو بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے تھے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی کا بنچ یا تاریخ مانگی جائے، ہم یہاں کسی کیلئے کوئی الگ قانون نہیں بناسکتے، ٹھیک ہے دس سال تک کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کوئی جونیئر وکیل تک یہاں موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو نظرثانی میں وکیل تبدیل کرنے کا قانونی حق بھی موجود ہے، یہ واضح ہے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں،انھیں ہیڈ لائن چاہیے تھی لیکن سپریم کورٹ ایسی کوئی ہیڈ لائن نہیں دے گی۔
چیف جسٹس نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے پوچھا کہ انٹرا پارٹی کیس کا فیصلہ کب ہوا تھا؟ اس پر وکیل نے کہا کہ 13 جنوری کو مختصر فیصلہ دیا گیا، 25 جنوری کو تفصیلی فیصلہ جاری ہوا، عام انتخابات 8 فروری کو ہوئے اور نظرثانی 6 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کو اس آرڈر سے نقصان نہیں پہنچا؟ نظرثانی کی درخواست 29 مئی کی مجوزہ کاز لسٹ میں شامل تھی، بیرسٹر علی ظفر کی عمومی التوا کی درخواست چار جون تک کیلئے آئی، اس کے بعد بنچ کی رکن جج کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، نظرثانی کو جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی کوئی درخواست بھی دائر نہیں کی گئی، اب جب مقدمہ سماعت کیلئے مقرر ہوا تو کوئی نہیں آیا پھر باہر جاکر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
بعدازاں عدالت نے آج کا حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ حامد خان نے التوا کی درخواست دی جس میں فیملی مصروفیت کا ذکر کیا گیا، درخواست میں صرف بتایا گیا کہ فیملی مصروفیت ہے، کیا مصروفیت ہے وہ نہیں بتائی گئی اور نہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود پیش ہوئے۔
اس کیس میں حامد خان کے علاوہ نیاز اللہ نیازی، اجمل طور، بیرسٹر گوہر بھی وکیل ہیں، اگر حامد خان دستیاب نہیں تھے تو کوئی اور وکیل پیش ہوسکتا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب قانون نے نظرثانی میں وکیل تبدیلی کا حق بھی دے رکھا ہے، کیس میں آئندہ مزید التوا نہیں دیں گے، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سماعت ملتوی کی جاتی ہے اور اب کیس کی آئندہ سماعت 21 اکتوبر کو ہوگی۔
بعدازاں عدالت نے حکم نامے کی نقل وکلاء کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی کردی۔