اسلام آباد: (دنیا نیوز) پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی سے منظور شدہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ سامنے آ گیا۔
مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں، نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق کابینہ، صدر یا وزیراعظم کو بھیجی گئی سفارشات کے متعلق کوئی بھی عدالت پوچھ نہیں سکے گی، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کر کے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز بھی ہے۔
ڈرافٹ میں جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے 4 سینئیر ترین جج شامل کرنے کی تجویز ہے، مجوزہ ترمیم کے مطابق وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کا نامزد وکیل جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کر لیا
جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو ، دو ارکان شامل کرنے کی بھی تجویز ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن سے ہو گا۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں اتفاق رائے سے 11 صفحات پر مشتمل مسودہ کو حتمی شکل دیدی گئی، آئینی ترمیم کو 26 ویں ترمیمی ایکٹ 2024ء کا نام دیا گیا ہے، آئینی مسودے میں 9A کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 38 اور آئین کے آرٹیکل 48 اور آئین کے آرٹیکل 81 میں ترامیم کی گئی ہیں، سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم اپنی سیاسی طاقت پر کر کے دکھائیں گے: بلاول بھٹو
چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 12 رکنی ہوگی، کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینیٹ شامل ہوں گے، ترمیم پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
تجویز کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔
تجویز ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم پر مولانا سے اتفاق رائے ہوچکا، جلد نتیجے پر پہنچ جائیں گے: بیرسٹر گوہر
آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔