نئے انتظامی صوبوں کی ضرورت!

Published On 27 February,2025 11:09 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے ایک بڑے انتظامی اور عوامی ایشو پر بڑی نشستوں کا اہتمام ہونے لگا ہے، حالیہ دنوں دو گول میز کانفرنسوں میں ملک کے پالیسی میکرز، سابق بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے شرکت کی، معاملہ تھا ملک میں نئے انتظامی یونٹس بنانے کا، جو اس وقت گورننس معیشت، امن و امان، تعلیم اور صحت سمیت بیسیوں شعبوں میں اصلاحات کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے تھنک ٹینکس نے اس معاملے پر بات چیت شروع کر دی ہے، گزشتہ ہفتے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اس موضوع پر ایک گول میز کانفرنس منعقد کی جس میں شرکاء نے قومی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے نئے صوبوں کی ضرورت پر اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو فوری طور پر پارلیمان میں لایا جائے، تجویز دی گئی کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے اپنی تجاویز پارلیمان کو بھجوائے۔

گول میز کانفرنس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں کا ماڈل غیر حقیقی ہے، اگر پنجاب کی بات کی جائے تو آبادی کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے 180 ممالک سے بڑا ہے، اسی طرح بلوچستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 130 ممالک سے بڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس تقسیم کے ساتھ پاکستان میں گورننس کے مسائل کا حل اور عوام کو ریلیف پہنچانا ممکن نہیں۔

اگرچہ پاکستان میں نئے صوبوں کے حوالے سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر یہ آوازیں لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے سے متعلق ہوتی ہیں، جو پاکستان کے حقیقی مسائل کے حل کی بجائے ایک لسانی اور سیاسی نعرہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ ماہرین خالصتاً انتظامی بنیادوں پر انتظامی یونٹس کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی گول میز کانفرنس میں بھی اسی جانب توجہ دلائی گئی تھی، اس کانفرنس میں نئے انتظامی یونٹس سے متعلق میاں عامر محمود کے کانسپٹ پیپر کو بے حد سراہا گیا، جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ 1972ء کے انتظامی یونٹس کو نئے صوبوں کا درجہ دے دیا جائے۔

اس کانسپٹ پیپر میں دی گئی تجویز کے مطابق پنجاب کو پانچ ، سندھ اور خیبر پختونخوا کو تین تین جبکہ بلوچستان کو دو صوبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ان مجوزہ انتظامی یونٹس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ لاہور کے 1972ء کے سول ڈویژن ماڈل، جس میں لاہور قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، گجرات، منڈی بہاؤالدین اور حافظ آباد شامل ہیں، کو صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، یہ کل 28 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل ہوگا اور اس کی آبادی چار کروڑ 15 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہوگی۔

اس طرح ملتان، وہاڑی، خانیوال، لودھراں، ڈی جی خان، راجن پور، لیہ، مظفرگڑھ، ساہیوال، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع پر مشتمل علاقے کو صوبہ بنایا جانا چاہیے جو 63951 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے، سرگودھا، میانوالی، بھکر، فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا رقبہ 44949 مربع کلو میٹر بنتا ہے اور آبادی دو کروڑ 58 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان کا رقبہ 45346 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ سے زائد ہے، ان علاقوں کو بھی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، اس طرح راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کی آبادی ایک کروڑ 14 لاکھ جبکہ رقبہ 22000 مربع کلو میٹر سے زائد ہے۔

کراچی ساؤتھ، کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ، کراچی سینٹرل، ملیر، کورنگی اور کیماڑی پر مشتمل علاقے کو صوبے کا درجہ دیا جانا چاہئے، جس کی آبادی دو کروڑ 38 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، اسی طرح گھوٹکی، خیرپور، سکھر، سانگھڑ، نوشہرو فیروز، شہید بینظیر آباد، جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ اور شکارپور کے علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔

بدین، دادو، جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری، ٹنڈو اللہ یار، ٹنڈو محمد خان، ٹھٹھہ، سجاول، میرپورخاص، تھرپارکر اور عمر کوٹ کو بھی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، خیبر پختونخوا میں تجویز کئے گئے تین انتظامی یونٹس میں مالاکنڈ، چترال، سوات اور دیر پر مشتمل صوبہ مالاکنڈ، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان، جنوبی وزیرستان، ٹانک، بنوں، لکی مروت، شمالی وزیرستان پر مشتمل ڈی آ ئی خان صوبہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس تجویز کے تحت پشاو، چارسدہ، نوشہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ، کوہستان، کوہاٹ، ہنگو، کرک، کرم، اورکزئی، مردان اور صوابی کے علاقوں پر مشتمل صوبہ بنایا جا سکتاہے، اسی طرح بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات پر مشتمل دو الگ صوبے بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔

اس گول میز کانفرنس میں شرکاء نے بتایا کہ گورننس کے مسائل کے حل کیلئے درکار نئے صوبوں کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اشرافیہ ہے کیونکہ نئی حد بندیاں ان کے سیاسی ماڈل کیلئے نقصان دہ ہیں، مگر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کیلئے نئے انتظامی یونٹس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، اگر ہم ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اس عوامی مسئلے میں دلچسپی دیکھیں تو کسی نے اس کے قابل عمل حل کیلئے کچھ نہیں کیا۔

پیپلز پارٹی صرف جنوبی پنجاب کی حد تک بات کرتی دکھائی دیتی ہے، سندھ میں مزید صوبے بنانے کے حق میں دکھائی نہیں دیتی، مسلم لیگ (ن) کی پنجاب کے مسائل کے حل کیلئے مزید انتظامی یونٹس کے قیام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے، تحریک انصاف کی ترجیحات میں بھی گورننس کے مسائل کے حل کیلئے اس آپشن پر جانا نظر نہیں آتا، مگر اس میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اچھی ساکھ اور اثر رکھنے والے تھنک ٹینکس نے اس اہم ترین معاملے پر بات کرنا شروع کر دی ہے، اسی طرح کے ایک بڑے ادارے، ایس ڈی پی آئی نے بھی اسلام آباد میں آج ایک اہم نشست رکھی ہے۔

اس کے بعد امید پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر اس اہم معاملے پر کم از کم بات تو ہونا شروع ہوئی ہے، ان اداروں کو اس بات چیت کو جاری رکھتے ہوئے اہم سٹیک ہولڈرز یعنی عوامی نمائندوں کو اس بات چیت میں شریک کرنا ہوگا کیونکہ اس کا حل بالآخر پارلیمان نے ہی نکالنا ہے جس کیلئے آئین میں ترمیم کرنا لازم ہے۔