لاہور: (ڈاکٹر زاہد منیر عامر) وہ آل انڈیا مسلم لیگ کا 34واں سالانہ اجلاس تھا جو تین روز جاری رہا، 22 مارچ 1940ء کو شروع ہونے والا یہ اجلاس 24 مارچ 1940ء کو اختتام پذیر ہوا، آخری دن اس اجلا س میں وہ قرار داد پیش ہوئی، جسے قرار داد لاہور کہا گیا۔
چونکہ چودھری رحمت علی 1933ء میں مسلمانوں کے ایک الگ ملک کیلئے پاکستان کا نام تجویزکر چکے تھے اوراس قرار داد میں آبادی کے تناسب سے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس لئے ہندو پریس نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا اور اسے ناممکن کی جستجوسے تعبیر کیا۔
قرار داد میں جغرافیائی حدود میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا بعد میں جس طریقے سے تقسیم عمل میں لائی گئی اور بڑے پیمانے پر آبادیوں کا تبادلہ ہوا، قرارداد میں اس کا کوئی ذکر تھا نہ ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا تھا، جغرافیائی تقسیم کے عمل میں مسلم آزاد علاقوں میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بطور خاص ذکر کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہندوستان کے باقی حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کا بھی ذکرتھا۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ اقلیتوں کے مذہبی، سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر مفادات کا تحفظ اکثریتی پارٹیاں اپنی صوابدید سے نہیں کریں گی بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ متعلقہ اقلیتوں کے اپنے مشورے سے کیا جائے گا، یہ بات بعد میں پاکستان کے دستور میں بھی ذکر کی گئی، اس اجلاس میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ جغرافیائی منطقوں کی حدبندی کا یہ مطالبہ منظور ہو جانے کی صورت میں پنجاب کے سکھوں کی پوزیشن شمال مغربی مسلم رقبے میں اچھی ہو جائے گی۔
قائداعظمؒ نے قرارداد پیش کئے جانے کے موقع پر ایک سو منٹ تک اجلاس سے خطاب کیا جس میں آزاد اور خودمختار منطقوں کے مطالبے کی غایت واضح کی گئی، اس قرارداد کی منظوری کے بعد حالات وواقعات کی رفتاربہت تیز ہوگئی تھی، اس قرارداد کی منظوری کے دو ہی برس کے بعد ہندوستان کے سیاسی مسئلے کے حل کیلئے برطانیہ سے کرپس مشن ہندوستان آیا۔
اسی سال ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک شروع ہوئی اوراس سے اگلے ہی سال یعنی 1943ء میں لارڈویول وائسرائے بن کر ہندوستان آیا، جس کے تقرر کا واحد مقصد ہندوستان کو تقسیم سے روکنا تھا لیکن ویول جیسا تجربہ کار جرنیل بھی اس جنگ میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ہندوپریس کی جانب سے تو قرارداد کی مخالفت ہونا ہی تھی بعض مسلمان حلقوں نے بھی اس قرار داد کی مخالفت کی، ان میں کچھ تو وہ حلقے تھے جو مسلم لیگ کے زاویہ نظرسے اختلاف رکھتے تھے لیکن کچھ ایسی اطراف سے بھی مخالفانہ آوازیں سنائی دیں جن کا تعلق خود مسلم لیگ سے تھا، چودھری خلیق الزمان مسلم لیگ کے سربرآوردہ رہنماؤں میں شمارہوتے تھے، وہ1937ء میں مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈکے رکن اوربعدازاں اس کے صدر بھی رہے۔ وہ یوپی کی دستور ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے، 1946ء میں مسلم لیگ کی جانب سے دستورساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔
قیام پاکستان کے بعد انھوں نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور وہ مشرقی پاکستان کے گورنر اور انڈونیشیا اور فلپائن میں پاکستان کے سفیر بھی رہے، آخری عمر میں انھوں نے اپنی یادداشتیں مرتب کیں جو اردو میں ’’شاہراہ پاکستان‘‘ اور انگریزی میں ’’Pathway to Pakistan ‘‘ (’’پاتھ وے ٹو پاکستان‘‘) کے نام سے شائع ہوئیں، یہ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں ہماری قومی تاریخ کے بہت سے پہلوؤں پر اہم مواد یکجا ہو گیا ہے۔
اپنی ان یادداشتوں میں چودھری صاحب نے قراردادپاکستان کے حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اور یہ لکھا کہ ’’ یہ تجویز ایک سبجیکٹ کمیٹی سے پاس ہو کر کونسل میں آئی تھی، خدا معلوم اس کو سبجیکٹ کمیٹی میں سر سکندر حیات اور مسٹرجناحؒ نے کیسے منظور کر لیا، اگر میں ان جلسوں میں موجود ہوتا تو میں اس تجویز کی بنیادی ساخت اور اس کے گنجلک الفاظ کے خلاف اپنی آواز ضرور اٹھاتا اور مجھے آج بھی یقین ہے کہ یہ ریزولیوشن شاید اس شکل میں پاس نہ ہو سکتا جس میں وہ پاس ہوگیا تھا‘‘ (چودھری خلیق الزمان شاہراہِ پاکستان کراچی،انجمن اسلامیہ پاکستان اکتوبر ۱۹۶۷ء ص ۷۹۴)۔
یہ قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی، مولوی صاحب کے قرار دادپیش کرنے کے بعد چودھری خلیق الزمان نے خطاب کیا، انھوں نے قرارداد کی تائید کی اورکہا کہ ان حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جنھوں نے مسلمانوں کو علیحدگی کے مطالبے پر مجبور کیا، انھوں نے کہا اس مطالبے کے پس منظر میں سب سے پہلے برطانیہ کی یہ پالیسی دکھائی دیتی ہے، جس میں اس نے ہندوستان کو ایک قوم قراردے کر یہاں اکثریت اور اقلیت کا اصول نافذ کیا جس نے معاملے کو وہاں تک پہنچا دیا جہاں تک یہ حقیقت میں نہیں تھا۔
دوسرے نمبر پر کانگریس اس مطالبے کی ذمہ دار ہے جس نے اپنے اکثریتی صوبوں میں اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں، ان حالات کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنے وجود میں خطرے کو محسوس کیا اور یہ سمجھ لیا کہ اگر وہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں جدوجہد کرنا ہوگی، تیسرے علیحدگی کا مطالبہ کئے جانے کی ایک وجہ ان مسلمانوں کی سرگرمیاں ہیں جنھوں نے مخالف تنظیموں یا کانگریس میں شامل ہو کر مسلمانوں کو تقسیم کیا۔
انھوں نے اپنی تقریر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا کے خیال میں مسلمانوں کو تقسیم کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کیلئے کافی مضبوط ہیں، چودھری خلیق الزمان کا کہنا تھا کہ اگر تو دفاع تلوار کی بنیاد پر کیا جائے تو پھر ہندوستان کے نو کروڑ مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں لیکن یہاں سوال قوت کا نہیں ووٹ کا ہے۔
انھوں نے ایک مسلم لیگی، جو کسی کانگریسی کا دوست تھا، کے حوالے سے بتایا کہ اگر کانگریس مسلمان کانگریسیوں کی ہدایت پر چلی تو اسے یقین تھا کہ ہندوستان میں خانہ جنگی جنم لے گی، انھوں نے اقلیتی صوبوں میں بسنے والے مسلمانوں سے کہا کہ انھیں ہندوستان کے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جانے پر خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، انھوں نے یہی بات پنجاب اور بنگال کی اقلیتوں سے بھی کہی، انھوں نے اس بات پر تنقید کی کہ کانگریس ہمیشہ منفی طرز عمل اختیار کرتی رہی اور اس نے کبھی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔
اس تقریر کو سامنے رکھا جائے تو ہم نے اوپر چودھری خلیق الزمان کی خود نوشت سوانح سے جو اقتباس پیش کیا ہے اس کی بوالعجبی واضح ہوجاتی ہے، چودھری صاحب نے قرارداد پاکستان کے حوالے سے دوسری بات یہ کی ہے کہ ’’ صرف دو تقریریں اس ریزولیویشن پر مسلم لیگ کی طرف سے آفیشل روداد میں شامل ہیں یعنی ایک مسٹر فضل الحق کی اور دوسری میری‘‘ ۔
مارچ 1940ء کے اجلاس کی جس روداد کا اوپر ذکر ہوا اس میں مستقبل کے ہندوستانی دستورکیلئے پیش کی گئی قرارداد کا متن اور اس دستور میں مسلمانوں کی پوزیشن تفصیل سے پیش کی گئی ہے، قائداعظم کی تقریر بہت مفصل اور ہندومسلم تنازع کے تمام پہلوؤں کااحاطہ کرنے والی ہے اوران تمام واقعات کا تجزیہ پیش کرتی ہے جو بالآخر مسلمانوں کی جانب سے تقسیم کے مطالبے پرمنتج ہوئی۔
قائداعظم کے خطاب کے بعد ہندوستان کیلئے مستقبل کے دستور کے حوالے سے مسلم لیگ کے اس ستائیسویں سالانہ اجلاس میں وہ تاریخی قرارداد پیش کی گئی جسے مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور اور ہندوستانی پریس نے قراردادِ پاکستان قراردیا، قرارداد کا متن صفحہ 27 سے 29 تک ہے اس کے بعد قرارداد کی تائید میں ہونے والی تقریروں کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔
سب سے پہلے وزیراعظم بنگال مولوی فضل الحق کی تقریر کا خلاصہ ہے جنھوں نے یہ قرارداد پیش کی، ان کے بعد سب سے پہلے چودھری خلیق الزماں کی تقریر ہے جس کا خلاصہ اوپر پیش کیاگیا، چودھری خلیق الزمان کے بعد مرکزی دستور ساز اسمبلی کے رکن مولانا ظفر علی خان نے اجلاس سے خطاب کیا، اس اجلاس میں انھوں نے قائداعظم کی ہدایت پر قراردادِ لاہور کافی البدیہ اردو ترجمہ بھی پیش کیا تھا۔
وقت نے ثابت کیا کہ دنیاکی تاریخ میں ایسے کسی ریزولیوشن کی مثال نہیں ملتی کہ جس کی بنا پر کوئی ملک معرض وجود میں آگیا ہو، اس لحاظ سے یہ ایک اہم ترین سیاسی دستاویز ہے۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر صدر مسند اردو و مطالعہ پاکستان، تہران یونیورسٹی، ایران ہیں۔