اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیر سے آئے مگر درست نہیں آئے، آپ نے کہا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، سپریم کورٹ یوٹیوب چینل پر کیس کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی۔
کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں دو ججز اور 8 ججز کے فیصلے کے نکات بتاؤں گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کیا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب، آپ نے مرکزی کیس میں یہ سب دلائل نہیں دیئے، سب حقائق ہم نے خود نکال کر لکھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کل کا شعر میرے دماغ میں چلتا رہا، آپ کے شعر پر مجھے وہ کارٹون یاد آیا جو 2018 کے انتخابات میں آیا تھا، 2018 کے انتخابات میں ایک رنگ میں کارٹون باکسر کے ہاتھ بندے تھے اور دوسرا آزاد تھا، ہر دور میں کوئی نا کوئی سیاسی جماعت بینیفشری ہوتی ہے، جج مصلحین نہیں ہو سکتے یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے، میں آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کو 41 امیدواروں کے پی ٹی آئی نہ لکھنے کی وجہ بتانا چاہتا ہوں، الیکشن کمشنر پنجاب کا فیصلہ تھا کہ پی ٹی آئی والوں کے کاغذات منظور نہیں ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں الیکشن کمیشن کا تو کام ہی نہیں، کاغذات نامزدگی پر فیصلہ آر اوز نے کرنا ہوتا ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آر اوز کا بھی تاثر تھا کہ کاغذات منظور نہیں ہوں گے، ایک غیر یقینی کی صورتحال تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ میچور سیاسی جماعتیں غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کرتی ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سر کیا نہ مقابلہ، جیسے کر سکتے تھے، آپ ہمیں دوش دے دیں، میں لے لوں گا۔
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کل آپ نے کہا 12،14 سال کے بچے گرفتار ہوتے تھے آپ ٹافیاں دینے جاتے تھے، کسی بچے کا باپ کورٹ نہیں آیا کوئی پریس کلپنگ نہیں دی گئی، اس قسم کا بیان ہمارے اور قوم کیلئے سرپرائز تھا، جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ قوم کیلئے تو یہ سرپرائز نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہی اس طرح کی بات کی گئی، جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میں اس بیان پر معذرت چاہتا ہوں۔
مزید برآں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مرکزی کیس میں بار بار پوچھا گیا پی ٹی آئی کہاں ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم دیر سے آئے مگر درست آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نہیں آپ دیر سے آئے مگر درست نہیں آئے، آپ نے کہا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے آپ کو الیکشن سے پہلے 100 فیصد انصاف دیا تھا، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں جو حقائق بیان کئے گئے وہ آپ نے پیش نہیں کئے تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں فہرست بنائی ہم نے لیکن وہ تو ہمارے سامنے نہیں تھی، کیا قانونی شواہد موجود تھے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور دو بنچز سے 9.99 کاغذات نامزدگی کے مقدمات پی ٹی آئی کے حق میں آئے تھے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس مقدمے میں فریق عوام پاکستان ہے، کئی ایسے مقدمات ہیں جن سے یہ طے ہوتا ہے کہ جہاں عام عوام کا تعلق ہو وہ مفاد عامہ کا مقدمہ ہوتا ہے، آرٹیکل 185 تھری میں اپیل آرٹیکل 199 کا تسلسل ہوتی ہے جو بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے، یہ عدالت اپیل میں مفاد عامہ کے معاملے میں آرٹیکل 184 تھری اور ساتھ آرٹیکل 187 کا دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے پیر صابر شاہ کیس کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ججز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف براہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کا نکتہ طے کیا، پیر صابر شاہ کیس میں ججز نے طے کیا کہ مکمل انصاف اور آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار استعمال ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جوڈیشل ریویو کیلئے دائرہ اختیار استعمال کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 185 تھری کا ایک دائرہ اختیار ہے، اس کیس میں کم از کم پورے جج کو پتا تو ہوتا کہ کون سا دائرہ اختیار ہے، موجودہ کیس میں تو بس فریقین اور عدالت کا معاملہ ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ عدالت اور فریقین کا نہیں عوام کے جمہوری حق ہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس امین الدین کا کہنا تھاکہ آپ نے یہ سب عدالت کے سامنے پہلے نہیں رکھا، جس پر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم نے کہا تھا کہ اسمبلی میں درست نمائندگی ہونی چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی نہ رکھی جانے پر کوئی آئینی پابندی ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت نے قرار دے دیا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں ہم تو اس پر منحصر ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون سے بنیادی حقوق اس کیس میں متاثر ہوئے تھے؟
جسٹس نعیم اختر نے سوال کیا کہ کوئی عدالت کسی امیدوار اور سیاسی جماعت کے چھوڑے گئے خلا کو پر کر سکتی ہے؟ اگر کسی کے ساتھ دھاندلی ہو اور وہ درخواست دائر کرنے میں غلطیاں کرے تو عدالت اس کو موقع دے سکتی ہے؟ کیا عدالت فریقین کی غلطیوں کو دور کر سکتی ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کیس میں ایک صورتحال پیدا کی گئی جو پی ٹی آئی نے نہیں کی، ہمارے سامنے دیوار کھڑی کر دی جائے اور میں اس کو گرا دوں تو یہ سوال ہوگا کہ دیوار کیوں گرائی یا یہ کہ کھڑی کس نے کی؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو شنوائی کا حق دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کچھ بھی کہتے جائیں، دیوار آپ نے کھڑی کی آپ سنی اتحاد کونسل میں گئے اور وہ عدالت میں آئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ اگلے انتخابات کی تیاری کریں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسے ہی حالات رہے تو اگلے انتخابات بھی ایسے ہی ہوں گے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی پابند ہے، اگر کوئی فیصلہ غیر آئینی ہے تو عدالت اس کو واپس لے سکتی ہے، جس پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری نظر میں اکثریتی فیصلہ غیر آئینی نہیں تھا۔
بعدازاں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی، کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔