کراچی: (فرحین عاطف) ہمارا معاشرہ تیزی سے عدم برداشت، انا پرستی اور ذہنی دباؤ کے بوجھ تلے دب رہا ہے، خاندانی جھگڑے اور علیحدگیاں اب صرف دو افراد کے درمیان معاملہ نہیں رہیں بلکہ اس کی سب سے بھاری قیمت معصوم بچے ادا کرتے ہیں۔
کہیں ماں اپنی گود اجاڑ دیتی ہے تو کہیں باپ اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر دیتا ہے، سوال یہ ہے کہ قصوروار کون ہے؟ وہ چھوٹے دل جو محبت اور تحفظ کے مستحق تھے یا وہ بڑے دل جو نفرت، ضد اور انا کے غلام بن گئے؟
اسی طرح کا ڈیفنس کراچی میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں سگی ماں نے اپنے دو بچوں کو ذبح کر ڈالا، جو وجہ سامنے آئی وہ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کے سبب علیحدگی ہے اور پھر بچوں کی کسٹڈی باپ کو ملی، بچے ماں سے ملنے آتے تھے لیکن اس بدبخت عورت نے اپنی گود خود اجاڑ ڈالی، سننے میں آیا ہے کہ خاتون ذہنی مریضہ ہے اور اکثر دورے پڑتے ہیں۔
حال ہی میں چند روز پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا جب باپ نے اپنے دو بچوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی، اس کا سبب بھی میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے کے بعد علیحدگی اور پھر بچوں کی کسٹڈی ماں کو ملنا بتائی گئی تھی۔
دونوں کیسز میں والدین کے جھگڑے، علیحدگی اور پھر سب سے بڑی وجہ عدم برداشت معلوم ہوتی ہے، چلو مان لیا کہ دو افراد میں نبھ نہ سکی چاہے وجہ کچھ بھی ہو، الگ بھی ہو گئے ٹھیک ہے، اب معاملہ آجاتا ہے بچوں کا، عدالت سے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر اس فیصلے کو بھی مانا جائے اور اس پر ایسے ہی راضی رہا جائے جیسے علیحدگی یا طلاق کے معاملے میں رہے۔
اس سب تماشے میں بچوں کا کیا قصور ہے؟ زندگی تو پہلے بھی ان کے لیے مشکل ہو ہی گئی تھی لیکن انہیں جان سے ہی مار دینے سے کیا مل گیا؟ شیطانی قوت کی ہی تسکین ہوئی، انا کی جیت میں اولاد قبر میں اتاردی گئی۔
ایک فریق دوسرے فریق کو ہرانے کے لیے خود درندگی کی حد سے بھی گزر جائے یہ کہاں کا انصاف اور کیسی جیت ہے؟ کیا گزرتی ہو گی ان ننھے دلوں پر جب سرد و گرم سے بچانے والی ماں نے ہی چھری چلائی ہوگی؟ کیا سوچا ہوگا ان معصوم ذہنوں نے جب حفاظتی حصار میں رکھنے والے باپ نے بچوں کو سمندر میں پھینکا ہوگا؟
خوف اور سنسنی کا کیا عالم رہا ہوگا؟ شاید دل ویسے ہی دھڑکنا بھول گیا ہو ان معصوموں کا جب بچانے والے ہی جلاد بن بیٹھے۔
عدم توجہی، برداشت کی کمی اور نام نہاد انا کے بت معاشرے کو کھوکھلا کر رہے ہیں، گھریلو اور سماجی سطح پر "تربیتی" اقدامات کی اشد ضرورت ہے، مسائل کو ڈسکس کیا جانا ضروری ہے بجائے سولی چڑھ جانے کے۔
ڈپریشن، اینزائٹی اور دماغی صحت کے حوالے سے ہر ممکنہ اقدام کیا جائے، ان معاملات پر "بات کی جائے" ورنہ ظاہری اطمینان اور جھوٹی مسکراہٹ تلے دبے زہریلے رویے اور پراگندہ سوچ کا تعفن نجانے اور کتنے ذہنوں کو آلودہ اور گھرانوں کو تباہ کر دے گا۔