لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ کو برہانی قوت اور معجزات عطا فرمائے بلکہ آپ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے ایسی علامات اور نشانیاں ظاہر فرمائیں جو آپﷺ کی نبوت کے اثبات پر بطور دلیل و برہان کے قائم ہیں، ان علاما ت و نشانیوں کو ’’اِرہاص‘‘ کہا جاتا ہے، جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
دلائل النبوۃ میں امام اصبہانیؒ فرماتے ہیں: جس رات نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی، اسی رات کسریٰ(شاہ ایران) کے محل میں زلزلہ آیا اور محل پر بنے ہوئے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گر پڑے، فارس (ایران) کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ بجھ گئی، بحیرہ ساوہ یکایک خشک ہوگیا۔
بنی ساسان کے نوشیروان کا 23 سال میں تعمیر ہونے والا یہ محل دنیا کی مشہور عمارتوں میں سے ایک تھا، زلزلے سے محل پر بنے 22 میں سے 14 کنگرے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کسریٰ نوشیروان سخت پریشان ہوا، اراکین سلطنت سے اس عظیم اور غیر معمولی واقعہ کی وجہ دریافت کرنا چاہی، اسی دوران اسے اطلاع دی گئی کہ آج کی شب تمام آتش کدوں کی آگ یکایک بجھ گئی ہے، یہ ابھی اسی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایلیا کے گورنر کا خط اس کو پہنچا جس میں اس نے لکھا کہ آج شب بحیرہ ساوہ کا پانی بالکل خشک ہوگیا ہے۔
اس مجلس میں طبریہ سے خبر آئی کہ بحیرہ طبریہ میں پانی کی روانی موقوف ہوگئی ہے، موبذان(آتش کدہ کا مجاور) نے کہا کہ آج کی رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ عربی اونٹ اور گھوڑے دریائے دجلہ کو عبور کر کے عجم کے شہروں میں پھیل چکے ہیں، بادشاہ کسریٰ نوشیروان نے موبذان سے پوچھا کہ تجھے اپنے خواب کی تعبیر کیا سمجھ آتی ہے؟ موبذان نے کہا کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے، ساتھ ہی یہ کہا کہ آپ حیرہ کے کسی عالم سے اس کے بارے میں دریافت کر لیں۔
نوشیروان کے حکم پر نعمان بن المنذر نے عبدالمسیح غسانی کو بھیجا، جس کی عمر لگ بھگ 150 برس ہوگی، اس کے سامنے خواب اور حیران کن واقعات بیان کئے گئے تو اس نے کہا کہ شام کے شہر جابیہ میں میرا ماموں سطیح رہتا ہے اس سے معلوم کرنا پڑے گا، جس کی عمر اس وقت 300 برس کے قریب تھی۔
عبدالمسیح چند لوگوں کے ہمراہ اپنے ماموں سطیح کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں کہا یمن کا سردار سنتا ہے یا بہرہ ہوگیا ہے؟ سطیح نے جواب دیا کہ اے عبدالمسیح! تم میرے پاس ایسے وقت میں آئے ہو جب میں قبر کے قریب ہو چکا ہوں، شاہ فارس نے تمہیں میرے پاس بھیجا ہے کہ تم مجھ سے یہ معلوم کر سکو کہ آتش کدے کیوں بجھ گئے؟ 14 کنگرے کیوں گر پڑے؟ موبذان کے خواب کی تعبیر کیا ہے؟ اے عبدالمسیح! جب کلام اللہ کی تلاوت بکثرت ہونے لگے، نبی آخر الزمان(ﷺ )اعلان نبوت فرما دیں، بحیرہ ساوہ کا پانی خشک ہو جائے، فارس کے آتش کدے بجھ جائیں تو سمجھ لینا کہ بابل اہل فارس کی جائے قیام نہیں رہا اور نہ ہی شام سطیح کا ملک رہا، 14 کنگرے گرنے کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ فارس کے کل 14 بادشاہ ہوں گے، یہ کہنا تھا کہ سطیح کا دم ہَوا ہُوا۔
عبدالمسیح وہاں سے فوراً واپس ایران آیا، کسریٰ نوشیروان کو سارا ماجرا سنایا اس نے تعجب سے کہا 14 بادشاہوں کیلئے تو لمبا زمانہ درکار ہے، لیکن اسے یہ خبر نہ تھی کہ خدائی وعدہ بہت جلد پورا ہونے جا رہا ہے، 4 سال کی مختصر مدت میں 10 بادشاہ(جن میں سے بعض قتل اور بعض معزول کر دیئے گئے ) ختم ہوگئے، باقی 4 بھی حضرت عثمانؓ کے ابتدائے زمانہ خلافت تک ختم ہوگئے، آخری بادشاہ یزدجرد پہلے لوگوں کے گھروں میں چُھپا رہا اور آخر کار قتل ہوا، یوں 3164 سالہ سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
آپﷺ کی نبوت کے اثبات پر آپﷺ کی ولادت باسعادت سے بھی قبل دوسری دلیل ایران کے آتش کدوں کی آگ کا یکایک بجھ جانا ہے، ان آتش کدوں میں ایک مرکزی آتش کدہ تھا جسے ایران کے بادشاہ گستاشپ نے مجوسیت اختیار کرنے کے بعد ہزار سال پہلے قائم کیا تھا، مجوسی آگ کی پوجا کرنے والی قوم کو کہتے ہیں، مجوسی لوگ چونکہ آگ ہی کو اپنا خدا مانتے تھے اس لیے وہ اسے اپنے عبادت خانے سے بجھنے نہیں دیتے تھے، ایران کے اس آتش کدے میں مسلسل ایک ہزار سال سے آگ جل رہی تھی لیکن جب آپﷺ کی ولادت باسعادت کا وقت آیا تو وہ آگ یکایک بجھ گئی، جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اسلام کے مقابلے میں مجوسیت مٹنے والی ہے۔
آپﷺ کی نبوت کے اثبات پر آپﷺ کی ولادت باسعادت سے بھی قبل تیسری دلیل بحیرہ ساوہ نامی جھیل کا یکایک خشک ہو جانا ہے، یہ ایران کے شہر ساوہ جو کہ ہمدان کے قریب ہے اس میں ایک مشہور جھیل تھی، یہ ایران کا سیاحتی مقام تھا لوگ یہاں پر آتے تھے اس لیے اس کے اردگرد گرجا گھر اور عبادت خانے بنائے گئے تھے، جس رات آپﷺ کی ولادت باسعادت ہونی تھی اسی رات اس جھیل کا پانی یکایک خشک ہوگیا اور ایسا خشک ہوا کہ ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔
حضرت عرباض بن ساریہ الفزاریؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ رب العزت کے ہاں میں اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ سیدنا آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے، مزید فرمایا کہ میں تمہیں اپنے بارے مزید باخبر کیے دیتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا (کا ثمرہ) ہوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں اور اپنی والدہ کے اس خواب کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے(یعنی روشن ہو کر نظر آنے لگے)۔(صحیح ابن حبان:6404)
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہے کہ میں اپنے باپ (جد امجد) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں، حدیث کے الفاظ درحقیقت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ملتا ہے اور حدیث مبارک میں بھی، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا مانگی کہ اے اللہ!اس وادی بے آب و گیاہ مکہ مکرمہ کو روئے زمین پر پُرامن خطہ بنا، دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل فرما اور ان لوگوں کو پاکیزہ رزق عطا فرما، مزید بھی چند دعائیں مانگیں۔
اس کے بعد بطور خاص بیت اللہ کو بسانے کیلئے یوں دعا مانگی: ’’اے وہ ذات جو ہماری ضرورت کے مطابق ہمیں ضروریات کو پورا فرمانے والے ہیں مکہ والوں کی نسل سے ایک اسی شہر میں ایک ایسا رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے باطن کو خوب پاک کرے، یقیناً تیری ہی ذات اقتدار کے اعتبار سے بھی کامل ہے اور حکمت کے اعتبار سے بھی کامل ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ:129 )
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔