پاکستانی قیادت سفارتی محاذ پر سرگرم

Published On 18 September,2025 09:21 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اس وقت ملک کی سیاسی قیادت سفارتی مشن پر ہے، صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو چین کے دورے پر ہیں جبکہ وزیراعظم قطر کے اہم دوروں کے بعد سعودی عرب میں موجود ہیں۔

اس کے بعد وہ برطانیہ روانہ ہوں گے اور وہاں سے آگے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکا جائیں گے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران بھی ان کی سائیڈ لائنز پر اہم ملاقاتیں طے ہیں، سفارتی افق پر پاکستان ایک مرتبہ پھر نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغرب کیلئے اہمیت اختیار کر چکا ہے، اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد عالم اسلام میں سب سے تگڑی آواز پاکستان ہی کی تھی۔

مشرق وسطیٰ میں جاری حالیہ کشیدگی میں عرب ممالک سے زیادہ پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک کے ساتھ کھڑا نظر آیا، دورۂ قطر کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے دوحہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کی، دونوں رہنماؤں نے خطے کی صورتحال پر قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا، دوحہ میں ہی وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی۔

وزیراعظم نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، فلسطین کے صدر محمود عباس اور ملائیشیا کے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی، دورۂ قطر کے بعد وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچ گئے ہیں، گزشتہ روز کنگ خالد ایئر پورٹ ریاض پہنچنے پر ان کا پُرتپاک استقبال کیا گیا، وزیراعظم کو سعودی عرب آمد پر دیا گیا پروٹوکول شاندار تھا،پاکستان کے وزیراعظم کے ہوائی جہاز کا سعودی فضائی حدود میں داخلے پر ایف 15 لڑاکا طیاروں نے استقبال کیا۔

ریاض پہنچنے پر وزیراعظم کو 21 توپوں اور سعودی عرب کی افواج کے چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی، پاکستان کے وزرائے اعظم جب سرکاری دورے پر سعودی عرب جاتے ہیں تو انہیں اسی نوعیت کا پروٹوکول دیا جاتا ہے مگر اس مرتبہ خاص بات یہ ہے کہ ساری مسلم امہ کی نظر پاکستان پر ہے اور معاملہ مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتحال کا ہے۔

معرکۂ حق میں پاکستان کی کامیابی کے بعد دنیا نے پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جب پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی عسکری طاقت دنیا پر واضح کی، اسرائیل کے بڑھتے ہوئے عزائم سے مشرق وسطیٰ کے ممالک اب پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں اور انہیں نیوکلیئر پاور سے لیس واحد اسلامی ملک ‘جو اپنی طاقت دنیا کو دکھا چکا ہے‘ کی قدر کا اندازہ ہے۔

اگرچہ پاکستان نے کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بننا مگر اس کے باوجود سفارتی سطح پر پاکستان کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، اس کی تازہ مثال اسرائیل ایران کشیدگی ہے جس مین ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کیلئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے اسرائیل کی ایران پر جارحیت پر بھرپور اصولی مؤقف بھی دنیا کے سامنے رکھا اور کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہوا، جہاں ایک جانب پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا تھا وہیں امریکا بھی پاکستان کو اہمیت دے رہا تھا۔

اسی طرح اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد پاکستان نے اس حملے کی مذمت کی اور قطر کے ساتھ کھڑا ہوا، وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے عرب اسلامی سمٹ کے موقع پر دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم بطور ایٹمی طاقت مسلم امہ کے ساتھ ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف قطر کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانے اور اسرائیل کو توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کیلئے عرب اسلامی ٹاسک فورس قائم کرنے کی تجویز دی۔

پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی اس موقع پر عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مشترکہ سکیورٹی فورس کے قیام میں کیا حرج ہے، مسلم ممالک کو ایک مشترکہ فورس بنانی چاہیے، ایک ایسا نظام تشکیل دیں جو جارحیت کیلئے نہیں بلکہ پُر امن مقاصد کیلئے ہو۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا کہ وزیراعظم پاکستان سعودی عرب سے براستہ برطانیہ امریکا روانہ ہوں گے جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی جس میں نہ صرف پاک بھارت تعلقات، جنوبی ایشیا کی صورتحال بلکہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی بات چیت متوقع ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب بھی بہت اہم ہوگا اور پاکستان اس موقع پر مسئلہ کشمیر، فلسطین سمیت خطے کی صورتحال پر اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھے گا۔

دوسری جانب صدرِ مملکت آصف علی زرداری چین کے دس روزہ دورے پر ہیں، ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو اور صاحبزادی خاتون اول آصفہ بھٹو بھی ان کے ہمراہ ہیں، گزشتہ پانچ روز سے صدر آصف علی زرداری چین میں اہم ترین ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ان کی سربراہی میں پاکستانی وفود کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کر رہے ہیں۔

صدر نے کئی صنعتکاروں اور بڑی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں ان میں شنگھائی الیکٹرک کے چیئرمین وولی بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے چین کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی چائنا سٹیٹ کنسٹرکشن انجینئرنگ کارپوریشن کے وفد نے بھی ملاقات کی جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری کے منصبوں پر بریفنگ دی گئی۔

صدر مملکت نے اپنے دورے کے دوران چین کے الیکٹرک کار مینوفیکچرنگ شعبے کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مینوفیکچرنگ، الیکٹرک بسوں، منی ٹرکوں اور گرین انرجی میں مشترکہ منصوبوں میں شرکت کی دعوت دی، صدر آصف علی زرداری نے شنگھائی میں مفاہمت کی تین یادداشتوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی، ان ایم او یوز کا مقصد پاکستان میں زراعت، ماحولیات اور ماس ٹرانزٹ کے شعبوں کی ترقی ہے۔

ایک جانب جہاں وزیراعظم اور ان کی ٹیم مشرقِ وسطیٰ اور مغربی بلاک کے ساتھ رابطے جاری رکھے ہوئے ہے وہیں صدر آصف علی زرداری کا دورۂ چین دو بلاکس کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے کیلئے بہت اہم ہے۔