لاہور: (گل زہرا) پلاسٹک کو غلط طریقے سے ٹھکانے لگانے کا رجحان پاکستان میں جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام(UNDP) کے مطابق پاکستان میں ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
اگر یہ سارا پلاسٹک کچرا ایک جگہ اکٹھا کیا جائے تو اس ڈھیر کی اونچائی 16500 میٹر ہوگی، یعنی دنیا کے دوسرے سب سے اونچے پہاڑ (کے ٹو) کی بلندی سے تقریباً دوگنا زیادہ۔
زیادہ تر پلاسٹک لینڈفلز (کچرا پھینکنے کی جگہوں)، کھلے میدانوں، نالوں، دریاؤں اور سمندر میں گرتا ہے، مگر پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو گلتا نہیں، اسے ختم ہونے میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں اور تب بھی یہ پوری طرح ختم نہیں ہوتا، یہ صرف سمندروں، زمین اور جانوروں کیلئے خطرہ نہیں بلکہ ہماری اپنی صحت کیلئے بھی نقصان دہ ہے، جب پلاسٹک کو جلایا جاتا ہے تو اس سے زہریلے کیمیکل خارج ہوتے ہیں، جھاگ والے پلاسٹک ڈبوں میں موجود کیمیکل (بینزین اور سٹائرین) کھانے پینے میں منتقل ہو سکتا ہیں۔
مزید یہ کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے، جن کا سائز 1 نینو میٹر (nm) سے 5 ملی میٹر (mm) تک ہوتا ہے، سانس، پانی، خوراک اور کپڑوں سے نکلنے والے ریشوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، یہ ذرات انسانی اعضا میں اور یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کی نالیوں میں بھی پائے گئے ہیں، اگر ہمیں صحت مند اور صاف ستھرا ماحول چاہیے، جہاں پلاسٹک کی آلودگی نہ ہو، تو ہم پانچ آسان طریقوں سے اس کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ری سائیکلنگ
سوچیں اگر آپ ایک بوتل کو بھی ری سائیکل کرتے ہیں تو آپ زمین کو کچرے کے پہاڑ سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گے، دنیا میں روزانہ لاکھوں ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے صرف 9 فیصد ہی ری سائیکل ہوتا ہے، یاد رکھیں ہر بوتل، ہر ڈبہ اور پلاسٹک کا ہر ٹکڑا جو آپ ری سائیکل کرتے ہیں وہ زمین کے مستقبل کیلئے ایک نئی امید ہے۔
دوبارہ قابلِ استعمال بنائیں
پلاسٹک بیگ جو چند منٹ ہمارے ہاتھوں میں رہتے ہیں مگر ماحول کیلئے صدیوں نقصان دہ ثابت ہوں گے، کیا یہ انصاف ہے کہ ہماری چند منٹ کی آسانی کے بدلے زمین ہزار سال تک تکلیف جھیلے؟ اس کا حل یہ ہے کہ ری یوز ایبل تھیلوں کو زندگی کا حصہ بنائیں، یاد رکھیں، آپ کا بیگ صرف آپ کا نہیں، یہ زمین کے مستقبل کا محافظ ہے۔
زمین پر مہربانی کریں
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ پہاڑ، وادی، دریا یا سمندر سے کچرا اٹھاتے ہیں تو صرف زمین نہیں بلکہ پرندے، درخت، مچھلیاں اور ہر وہ جاندار آپ کو دعا دیتا ہے جس کی زندگی پلاسٹک نے اجیرن کر رکھی تھی، صفائی مہم میں شامل ہونے کا مطلب زمین کو یہ پیغام دینا ہے کہ ’’ہم ابھی زندہ ہیں اور ہم تیرا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ اگر ہر محلہ، ہر سکول اور ہر گاؤں ہفتے میں ایک دن صفائی کرے تو سوچیں ہمارا پاکستان کتنا صاف دکھائی دے!
سوشل میڈیا کا تعاون
ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا آج کی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، ایک چھوٹی سی ویڈیو، ایک چھوٹا سا چیلنج لاکھوں دلوں کو بدل سکتا ہے، اگر ہم گانے یا فیشن، مزاحیہ ویڈیوز کو وائرل کر سکتے ہیں تو کیوں نہ پلاسٹک کے خلاف بھی مہم کو وائرل کریں؟ ایک ویڈیو، ایک پوسٹ، ایک ہیش ٹیگ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آواز پوری دنیا تک جا سکتی ہے، یاد رکھیں، سوشل میڈیا صرف وقت ضائع کرنے کیلئے نہیں بلکہ زمین بچانے کا سب سے تیز ہتھیار بھی ہے۔
پلاسٹک کے مسئلے کی جڑ صرف ہم نہیں ہیں بلکہ وہ بڑی کمپنیاں ہیں جو ہر روزانہ لاکھوں ٹن پلاسٹک مارکیٹ میں ڈال رہی ہیں، اگر ہم خاموش رہے تو یہ زمین کو زندہ درگور کر دیں گی، لیکن اگر نوجوان اکٹھے ہو جائیں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحول دوست تنظیمیں بنائیں، حکومت سے سوال کریں، دکانداروں سے پلاسٹک بیگ لینے سے انکار کریں، تو یہ کمپنیاں بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ آواز بلند کریں، کیونکہ یہ زمین ہماری ہے اور ہمیں ہی اس کا حق ادا کرنا ہے۔
یونیسف بھی پاکستان میں حکومت اور اداروں کے ساتھ مل کر زمین کو پلاسٹک کی اذیت سے بچانے کیلئے کام کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر بچہ یہ سوچے کہ اگر میں اپنی زمین کیلئے کچھ نہ کروں تو پھر کون کرے گا؟ زمین کو بچانے کیلئے بڑے بڑے کارنامے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قدم ہی کافی ہیں۔
ایک ری یوز ایبل بیگ کا استعمال، ایک بوتل کو ری سائیکل کرنا، ایک دن صفائی میں دینا، ایک پوسٹ شیئر کرنا، ایک آواز بلند کرنا، یہ سب مل کر زمین کے مستقبل کو بدل سکتے ہیں، آؤ ہم وعدہ کریں کہ زمین کو پلاسٹک کی قید سے آزاد کر کے اسے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک جنت بنائیں گے۔
گل زہرا طالب علم ہیں، نوجوان نسل کے لئے لکھتی ہیں۔