ماسکو: (شاہد گھمن) پاکستان کے باسی برسوں سے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے آئے ہیں، ہر شہری کے دل میں اپنے بچوں کے لیے تعلیم، روزگار اور سکونت کی امید جلی ہوئی ہے، مگر جب وطن میں مہنگائی، بے روزگاری اور کاروباری پیچیدگیاں بڑھتی ہیں، تو یہ خواب دھندلے پڑ جاتے ہیں۔
لوگ یا تو وطن میں صبر و تحمل کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں یا اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی بہتر زندگی کے لیے پردیس کا رخ کرتے ہیں، اور آج یہ پردیس اکثر بیلاروس کے نام سے جڑ گیا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے بیلاروس دورے کے دوران یہ اعلان ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانیوں کو بیلاروس بھیجا جا سکتا ہے، مگر یہ وعدہ ابھی تک عملی معاہدے میں تبدیل نہیں ہوا، یہی خلا ایجنٹ مافیا کے لیے سنہری موقع بن گیا، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر وہ کھلے عام "بیلاروس ویزہ" دینے کے جھانسے دے رہے ہیں، لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں اور سادہ لوح شہریوں کو فریب دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
ایجنٹ حضرات ہر شخص سے 18 لاکھ سے 28 لاکھ روپے تک وصول کرتے ہیں اور اسے یہ باور کراتے ہیں کہ یورپ کا دروازہ بیلاروس سے کھلتا ہے، بیلاروس پہنچنے کے بعد حقیقت منظر عام پر آتی ہے، اکثر پاکستانیوں کو محض ایک رجسٹریشن سٹیکر دیا جاتا ہے، ملازمت کی ضمانت نہیں، اور تنخواہ محض 400 سے 500 ڈالر ماہانہ، بہت سے افراد فرضی کمپنیوں کے ذریعے وہاں بھیجے جاتے ہیں، جہاں نہ کوئی کام ملتا ہے اور نہ کوئی تحفظ ۔
یہیں سے ایک اور اندوہناک حقیقت سامنے آتی ہے، بہت سے پاکستانی بیلاروس کو یورپ تک پہنچنے کے لیے صرف ایک "ٹرانزٹ پوائنٹ" سمجھتے ہیں، وہ یہاں سے غیر قانونی طور پر پولینڈ کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سرد راتوں، برفانی جنگلات اور خطرناک راستوں میں کئی نوجوان اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، کچھ کی لاشیں جنگلات میں رہ جاتی ہیں اور اہل خانہ آج تک یہ نہیں جان پاتے کہ ان کے پیارے کہاں گئے، یہ مناظر ایک قوم کے لیے انسانی المیہ ہیں، جو ہر ایک پاکستانی کے دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
پاکستانی سفارتخانے منسک کا کردار یہاں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سفارتخانہ نہ صرف عوام کے لیے پہلا سہارا ہونا چاہیے بلکہ وہ بیلاروس میں موجود پاکستانیوں کی جان و مال کا نگہبان بھی ہے، اسے چاہیے کہ وہ:بیلاروس جانے والے شہریوں کے لیے آگاہی مہم چلائے، فرضی کمپنیوں اور جعلی ورک پرمٹس کے خلاف کارروائی کرے، متاثرہ پاکستانیوں کے لیے لیگل ایڈ ڈیسک قائم کرے، سرحد پر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لیے فوری مدد فراہم کرے،بیلاروس حکومت کے ساتھ مل کر قانونی راستے تلاش کرے۔
بدقسمتی سے موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سفارتخانہ زیادہ تر رسمی نوعیت کی سرگرمیوں تک محدود ہے اور اسی خاموشی سے ایجنٹوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر کھلے عام دھوکے اور فراڈ کی تشہیر ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یہ انسانی المیہ صرف مالی نقصان تک محدود نہیں، یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہے، جو نوجوان اپنی صلاحیتیں، تعلیم اور محنت بیلاروس کے جنگلوں میں چھوڑ کر واپس آتے ہیں، وہ ملک کے انسانی سرمایہ میں کمی کا سبب بنتے ہیں، اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو آنے والے برسوں میں پاکستان میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ طبقہ نایاب ہو جائے گا اور ملک صرف صارفین کی قوم میں بدل جائے گا، ایسے میں حکومت اور ایف آئی اے کی ذمہ داری سنگین ہے، غیر قانونی ایجنٹس کے خلاف فوری کارروائی، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ان کے اشتہارات کو روکنا، سفارتخانے کی فعال نگرانی اور عوام کے لیے شفاف آگاہی فراہم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ متاثرین کو قانونی، معاشی اور نفسیاتی معاونت فراہم کرنا بھی لازمی ہے۔
پاکستانی نوجوان ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، اگر انہیں وطن میں رہ کر ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو نہ صرف وہ ملک کے لیے کام کر سکیں گے بلکہ وہی نوجوان اپنے خوابوں کے تحفظ کے لیے بھی سب سے آگے ہوں گے، بصیرت اور عملی اقدامات کے بغیر یہ ہجرتی سلسلہ رکنے والا نہیں اور بیلاروس کے خواب ایک دن موت کے سفر میں تبدیل ہو جائیں گے۔
اداروں کو حرکت میں آنا ہوگا، ایجنٹوں کو قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا اور سفارتخانوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی، بصورت دیگر بیلاروس کا سفر پاکستانیوں کے لیے یورپ کا دروازہ نہیں بلکہ قبر کا راستہ ثابت ہوتا رہے گا۔
یہ لمحہ قوم کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا ہے، کیا ہم اپنے ہنر مند نوجوانوں کو پردیس میں بھیج کر اپنی قوم کی ترقی کو قربان کر رہے ہیں، یا انہیں محفوظ، شفاف اور قانونی راستوں پر ترقی کے لیے رہنمائی فراہم کریں گے؟ بیلاروس کے خواب نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہر خواب کو حقیقت بنانے کے لیے محتاط منصوبہ بندی، قانون کی پاسداری اور ذمہ دار ادارے لازمی ہیں۔