نئے صوبے ہی بہتر گورننس، منصفانہ وسائل کی تقسیم کا واحد راستہ ہیں: میاں عامر محمود

Published On 24 September,2025 08:25 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ 78 سال بعد بھی 4 صوبوں کا نظام پاکستان کے بڑھتے مسائل کا متحمل نہیں، نئے صوبے ہی بہتر گورننس، منصفانہ وسائل کی تقسیم کا واحد راستہ ہیں۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹیوشنز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گورننس کے ایشوز کا کیا حل ہو سکتا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے کہ یہ کبھی حل نہیں ہو پاتے؟۔

انہوں نے کہا کہ 78 سال ہمیں ہو گئے آزاد ہوئے، اس میں بہت سے اچھے لوگ بھی آئے ہوں گے، خراب بھی آئے ہوں گے لیکن کوئی بھی ایسا دور نظر نہیں آتا جس میں بہتری ہوئی ہو، کس طرح ہماری اکانومی چل رہی ہے؟، کس طرح ہمارا روپیہ نیچے جا رہا ہے؟، کس طرح ہمارا لا اینڈ آرڈ کدھر جا رہا ہے؟۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ سب جماعتوں کی حکومتیں آئی ہیں یہاں پر لیکن کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں پاکستان کے حالات کچھ بہتر ہوئے ہوں، سوائے اس کے کہ ایک عارضی سا ٹائم آتا ہے جس میں ہم جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، وہاں کچھ دیر کے لیے ہمیں پیسے مل رہے ہوتے ہیں، سب کا کام کچھ بہتر ہوتا ہے لیکن اس کے بعد میں نمبرز دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا قرضہ بڑھ گیا، ہماری انڈسٹری اور نیچے چلی گئی اور جو ہم سمجھتے تھے کہ ہم خوشحالی کی طرف جا رہے ہیں تو حقیقت میں وہ نہیں ہو رہا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: بڑے صوبوں کے ہوتے ہوئے موجودہ سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا: میاں عامر محمود

چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ 80 سال میں کوئی بھی اچھا آدمی نہ آیا ہو، اچھے لوگ بھی ضرور آئے ہوں گے اور ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ جو حکمران بنتا ہے وہ صرف اسی لیے بنتا ہے کہ اس نے لوٹ مار کرنی ہے، لوگ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے کہ جہاں وہ بیٹھا ہے وہاں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور کرنا چاہتا ہے لیکن یہ ہو نہیں رہی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک آئیڈیا تھا جس پر ہم لوگ 20 سال سے بات کر رہے ہیں، چودھری عبدالرحمان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یونیورسٹیز میں بات کرنی چاہئے، یہ بھی ایک ایونیو ہے جسے ہمیں ایکسپلور کرنا چاہئے، ہم نے یونیورسٹیز میں جانا شروع کیا، ہم یوتھ کے پاس گئے، بچوں کے پاس گئے، ٹیچرز سے بات کی، یونیورسٹیز کی ایسوسی ایشنز سے بات کی تو احساس ہوا کہ ہر جگہ پر اسے لوگ پسند کر رہے ہیں، لوگوں کی سمجھ میں بات آ رہی ہے۔

"حکومتیں کیوں بنتی ہیں، ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے؟"

میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ حکومتیں کیوں بنتی ہیں؟ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کو اپنا سپیریئر بنا کر اپنے اوپر حکمران بنا لیں؟ اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا انسان کو تو آزاد ہی رہنا چاہئے، اپنا اپنا کام سب کریں لیکن ایک شخص کو، ایک پارٹی کو، ایک طبقے کو ہم باقاعدہ ووٹ دیتے ہیں اور اسے یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہمارے اوپر حکومت کرے اور صرف اپنا نہیں اپنے بچوں کا مستقبل بھی اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ ایسا ہم اس لئے کرتے ہیں کہ اس کی پالیسیز ہوں گی جوملک کا مستقبل طے کریں گی اور جو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل طے کریں گی، اتنی بڑی ذمہ داری ہے جو ہم اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے کسی کے حوالے کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ پولیٹیکل سائنس کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں تو 7 ایسی وجوہات نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے آپ حکومت بناتے ہیں، اس میں سب سے پہلے فارماسسٹ پبلک ویلفیئر، پھر مینٹیننس لاء اینڈ آرڈر ہے، قانون کی حکمرانی ہوگی، سوشل ویلفیئر ہو گی، اسٹیبلشمنٹ آف جسٹس ہوگا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم کی اور لوگوں کی اکنامک ویلفیئر ہو گی، پولیٹیکل ویلفیئر ہو گی اورسٹیٹ کی کوئی حفاظت کرنے والا ہوگا۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ میں نے جتنی بھی کتابیں دیکھیں ان میں سے یہ 7 مجھے چیزیں ملی ہیں کہ جس سے انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک حکومت قائم کرے اور وہ حکومت اس کے لیے کام کرے، اب دنیا میں بہت بڑی بڑی حکومتیں قائم ہوئیں۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ وفاقی سطح پر حکومت قائم ہوئی، وہ اتنی بڑی حکومت ہوتی ہے اور اس کو اتنے بڑے کام ہوتے ہیں کہ وہ ڈائریکٹلی پبلک ویلفیئر نہیں کر سکتی تو صدیوں پہلے سے یہ فیصلہ ہونا شروع ہوا کہ ایک حکومت ہو گی پھر اس کے نیچے صوبے ہوں گے، اس کے نیچے چھوٹے انتظامی یونٹ ہوں گے اور وہ پبلک کی ویلفیئر کے لیے کام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ صدیوں تک چلتا رہا، پھر لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ صوبے کی حکومت بھی ایک بڑی حکومت ہے، اس کے نیچے ایک لوکل گورنمنٹ ہونی چاہئے جو آپ کے روزانہ کے مسئلے حل کرے، وہاں پر لوگوں کو ریلیف دے۔

میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ میں تو اکثر یہ کہتا ہوں کہ میں رہا ہوں لوکل گورنمنٹ میں کہ تین سٹیپس جو آپ کی حکومت کے ہیں، فیڈرل ہے، صوبائی ہے اور لوکل ہے اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کرنے کی حکومتیں ہیں، لوکل گورنمنٹ خدمت کرنے کی حکومت ہے۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ نے آپ کی سڑک بنانی ہے، اس نے آپ کو سیوریج لائن پہنچانی ہے، اس نے آپ کو پینے کا صاف پانی دینا ہے، اس نے آپ کو صحت کی سہولت دینی ہے، اس نے آپ کو دوسری تمام زندگی کی سہولتیں جس سے روز آپ کا واسطہ پڑتا ہے وہ آپ کو فراہم کرنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کبھی لوکل گورنمنٹ بنتی نہیں، بنتی ہے تو سال دو سال میں ٹوٹ جاتی ہے، چار سال میں ٹوٹ جاتی ہے اور ہمارے اوپر صوبے کی حکومت ہے اور اس کے اوپر مرکز کی حکومت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی حکومتیں اتنی بڑی ہو چکی ہیں کہ پنجاب اکیلا 13 کروڑ کا صوبہ ہے، اسی طرح باقی صوبے ہیں اور دنیا میں واحد ایک ہم فیڈریشن ہیں جس کا ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی سب کو ملا کر بھی ان سے بڑا ہے، اسی لیے اس کو گالی پڑتی ہے کہ 51 فیصد ہیں اور یہ 53 فیصد ہیں، وہ اپنا اتنا حصہ نہیں مانگتا، باقی صوبے اس کو گالی بھی دیتے ہیں، اس کے خلاف بھی بات کرتے ہیں اور جو ان کی اپنی بھی ناکامیاں ہوتی ہیں وہ اس پر ڈال دیتے ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہم اب اتنے سمجھدار ہو چکے ہیں کہ ہم سوچ سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں کہ جب کوئی گورنمنٹ نہیں چل سکتی تو اپنی خرابیاں کسی جذباتی نعرے پر یا کسی مذہبی نعرے پر ڈال دیتی ہے اور لوگوں کو اس کے پیچھے لڑاتی ہے اور خود اس کے پیچھے چھپ جاتی ہے، یہ ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے، پوری دنیا میں ہو رہا ہے، جہاں حکومتیں ناکام ہوتی ہیں وہاں پر یہ ہوتا ہے۔

"دنیا کے 10 بڑے ممالک میں اوسطاً 30 سے 32 صوبے ہیں"

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ میرے پاس 10 بڑے ممالک کی فہرست ہے، جس میں چائنہ نمبر ون پر ہے، چائنہ میں 31 صوبے ہیں، بھارت دوسرے نمبر پر ہے 37 ریاستیں ہیں، 9 یونین علاقے ہیں، امریکا تیسرا بڑا ملک ہے 50 ریاستیں ہیں، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا جو ساڑھے 27 کروڑ کی آبادی ہے اس کے 34 صوبے ہیں، پانچویں نمبر پر ہم آتے ہیں ہمارے صرف 4 صوبے ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ نائیجیریا ہمارے بعد چھٹے نمبر پر آتاہے 27 صوبے ہیں، تقریباً 22 کروڑ کی آبادی ہے، یہ صرف دس بڑے ممالک کی بات کر رہا ہوں اس سے زیادہ زیادہ صوبے والے بھی ممالک ہیں، روس 14 کروڑ 20 لاکھ آبادی والا ملک ہے 46 صوبے ہیں، 22 ری پبلیکنز اور 9 علاقے ہیں۔ میکسیکو تقریباً 14 کروڑ کی آبادی ہے 31 صوبے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پورے 10 ممالک کی فہرست دیکھیں تو اوسطاً 30 سے 32 صوبے سب کے ہیں، ہم ہیں صرف جو 4 صوبے والے ہیں اور وہ بھی ایسے لاک سائیڈڈ ہیں کہ ایک صوبہ ایسا بلوچستان اس کا رقبہ ہی اتنا بڑا ہے کہ وہاں تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سنتے آئے ہیں بچپن سے کہ سوئی گیس نکلی ہے بلوچستان سے لیکن بلوچستان کو نہیں مل رہی، پہنچ ہی نہیں سکتی وہاں تک جتنی لمبی پائپ لائن بچھا کر آپ کو چھوٹی سی آبادی میں جانا پڑتا ہے، کاش ہم کوئی اور طریقہ نکال لیتے جو ہم نے نکالا نہیں لیکن پائپ لائن وہاں تک پہنچانا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں، ایک طرف آبادی، ایک صوبہ 51 فیصد ہے، ایک طرف رقبہ اتنا بڑا ہے کہ آپ پہنچ ہی نہیں سکتے، کوئی سہولت وہاں تک آپ لے کر جا ہی نہیں سکتے۔

"1951 میں پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ تھی"

چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد 1951 میں پہلی مردم شماری ہوئی تو پاکستان کی آبادی تقریبا 3 کروڑ 30 لاکھ تھی، 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہے، پنجاب جب آزاد ہوا تو 2 کروڑ کی آبادی والا صوبہ تھا، آج 13 کروڑ کی آبادی ہے، سندھ کی صرف 60 لاکھ کی آبادی تھی، اس وقت کراچی ہمارا دارالحکومت تھا۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی آبادی اس وقت 58 لاکھ تھی، بلوچستان میں صرف 11 لاکھ لوگ تھے، تبھی ان کی ویلفیئر کے لیے کچھ کر لیا جاتا تو آج یہ دن ہم نہ دیکھ رہے ہوتے، آج بلوچستان کی آبادی بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے، خیبرپختونخوا کی بھی 4 کروڑ آبادی ہو گئی، ہم آج تک وہی 1951 کے سسٹم پر چل رہے ہیں، ہم نے 4 ہی صوبے رکھے ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ کچھ صحافیوں نے صوبوں کے حوالے سے کہا کہ یہ تو ہزاروں سال کی روایات ہیں، میں نے کہا ایسا تو کچھ نہیں، کوئی ہزاروں سالوں کی روایات نہیں، ایک زمانے میں تو پشاور پنجاب کا حصہ تھا، ایک زمانے میں ملتان صوبہ تھا، یہ تو کہیں پر ایسی ہزاروں سال کی روایات نہیں جس کو ہم سینے سے لگا کر برباد ہوتے رہیں۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ صوبے بنتے بھی رہے ہیں، ایوب خان نے ون یونٹ بنا دیا تھا، کوئی صوبہ نہیں چھوڑا تھا، پورا پاکستان ایک یونٹ بن گیا تھا، پھر اس کے بعد یحییٰ خان نے صوبے بنائے، کسی نے کہا بہاولپور کو سٹیٹ بنا دیں، کسی نے کہا سوات کو بنا دیں، نہیں بن سکے صوبے بنا دیئے گئے، تب سے صوبے چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے تو کوئی بہت لمبی تاریخ ہمیں نظر نہیں آتی ان صوبوں کی جو آج ہیں، سرحدیں بدلتی رہیں، نام بدلتے رہے، وہ سب کچھ ہوتا رہا جیسے انتظامی معاملات باقی جگہ پر بدلے ویسے یہاں پر بھی بدلے، بھارت میں خاص طور پر دیکھیں تو وہاں ہر 4 ، 5 سال بعد نیا صوبہ بن جاتا ہے۔ اگر گورننس ٹھیک ہو گی تو ہم سب اس سے مستفید ہوں گے۔

"ملک کی ترقی میں ہم سب کی ترقی ہے"

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمیں بڑی اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے کہ ملک کی ترقی میں ہم سب کی ترقی ہے، اگر ملک ترقی نہیں کر رہا ہوگا تو ہم نہیں کر رہے ہوں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک تو نیچے جا رہا ہو اور ہم اوپر جا رہے ہوں۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ کچھ لوگ اوپر جاتے ہیں، ملک کی خرابی میں بھی اوپر جاتے ہیں لیکن وہ اچھے لوگ نہیں ہوتے، ان کی کوئی ہم تعریف نہیں کر سکتے جو ایسے حالات میں اوپر جاتے ہیں، ملک اوپر جائے گا تو ہم اوپر جائیں گے، یہ کون کرے گا؟ ہم کریں گے انشاء اللہ، ہم سب مل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 25 کروڑ ہیں لیکن ان صوبوں کے بینیفشری 25 کروڑ لوگ نہیں ہیں، جو صرف سندھ کی بات کرتے ہیں کہ مر جائیں گے اور سندھ نہیں تقسیم ہو گا، ہو سکتا ہے وہ بینیفشری ہوں، عام سندھی اس صوبہ کا بینفیشری نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حکومتیں فیل ہوتی ہیں تو وہ آپ کو جذباتی نعروں کے پیچھے لگا کر خود ان کے پیچھے چھپ جاتی ہیں، کبھی سندھ کے پیچھے چھپیں گی ہمیں اس کا پردہ دکھائیں گی، کوئی پنجاب کے پیچھے چھپے گا، کوئی کے پی کے اور کوئی بلوچستان کے پیچھے چھپے گا لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عام آدمی کو کیا مل رہا ہے؟۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ اگر تو عام آدمی کی زندگی سندھ میں بہت اچھی ہے تو ہمارا سلام ہے، اگر عام زندگی بلوچستان میں بہت اچھی ہے، میری بھی خواہش ہے میں بلوچستان میں رہنا شروع کر دوں، اگر خیبرپختونخوا بہت اچھا جا رہا ہے تو چلیں وہاں چل کر رہتے ہیں سارے لیکن کہیں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔

"ہم نے 80 سال میں صرف 5 کیپٹل سٹیز کو ترقی دی"

میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ ہم نے کیا کیا ہے پچھلے 80 سال میں صرف 5 کیپٹل سٹیز ہم نے ڈویلپ کی ہیں، 4 صوبوں کے کیپٹل، ایک وفاقی دارالحکومت، پنجاب میں کچھ نہیں ہے لاہور کے علاوہ، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، ایک ڈھنگ کا ہسپتال نہیں ہے وہاں پر، چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے ان لوگوں کو لاہور آنا پڑتا ہے، ایک ڈھنگ کی یونیورسٹی نہیں ہے، ایک ڈھنگ کا سکول نہیں ہے وہاں پر۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ سندھ میں کراچی کے باہر سارا سندھ کچی آبادی ہے، بلوچستان کوئٹہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہاں پر، خیبرپختونخوا میں پشاور کے بعد بتائیں کونسا ایسا شہر ہے جہاں کوئی جا کر رہ سکتا ہے؟، یہ ہر جگہ پر ہے، ہر کسی نے ایک کیپٹل سٹی ڈویلپ کی ہے اور بس، اور اس کیپٹل سٹی پر بھی کوئی احسان نہیں کر دیا، وہ سٹیز بھی پریشر میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کا ڈیٹا میرے پاس ہے، ہر سال لاہور میں کچی آبادیاں بڑھتی ہیں کیونکہ کسی اور جگہ پر سہولت نہیں ہے، جتنی ترقی لاہور کو دیتے ہیں اس سے زیادہ ہجرت وہاں پر ہوتی ہے اور کچی آبادیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، آپ جتنا پیسا لگا لیں وہ بڑھتی چلی جائیں گی۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ اب تو ہم کھل کر سانس نہیں لے سکتے۔ تین مہینے لاہور میں ایسی پالوشن ہوتی ہے کہ باہر نکل کر سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے، پہلی دفعہ ہم نے دیکھا گھروں میں ایئر پیوریفائر لگ رہے ہیں، ایسے شہروں کو ہم نے سہولتیں دے کر بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اور جن کو سہولت نہیں دی ان کو کوئی سہولت نہیں دی۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ بڑے بڑے صوبوں کے ہوتے ہوئے موجودہ سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا، نظام اتنا بوسیدہ ہوگیا ہے کہ اس میں کام کرنا ممکن نہیں، نئے صوبوں کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔