بڑے انتظامی ڈھانچے ناکام، نئے صوبوں کی فوری ضرورت ہے: میاں عامر محمود

Published On 04 December,2025 08:05 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا کہ بڑے انتظامی ڈھانچے ناکامی کا شکار ہے، پاکستان کو نئے صوبوں کی فوری ضرورت ہے۔

امیجن پاکستان 2030 کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے دنیا میڈیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود نے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے وقت کے ساتھ اپنے انتظامی یونٹ چھوٹے کیے، وہ بڑھتی آبادی اور ضروریات کو بہتر طور پر مینیج کرنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ کہیں بھی صوبائی سرحدوں کو مذہبی یا جذباتی وابستگی کے طور پر نہیں اپنایا گیا بلکہ انہیں عوامی سہولتوں کے مطابق ایڈجسٹ کیا جاتا رہا۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہماری ٹیم کراچی، پشاور، ایبٹ آباد اور ملک کے بیشتر علاقوں کا دورہ کر چکی ہے اور ہر جگہ عوامی جذبات مختلف ہونے کے باوجود ایک بات واضح ہے کہ جب کوئی لیڈر صوبائی عصبیت کا سہارا لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈلیور نہیں کر سکا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارے صوبے کئی ملکوں سے بھی بڑے، ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جائے: میاں عامر محمود

ان کے مطابق فیصلہ اب ڈیٹا کی بنیاد پر ہونا چاہیے کیونکہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، قانون و انصاف سمیت بیشتر شعبوں میں پاکستان عالمی انڈیکس میں نچلے دس فیصد ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

ناہمواریوں کا جائزہ

میاں عامر محمود نے ورلڈ بینک کی رپورٹ Pakistan at 100 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ترقی نہ ہونے کی پہلی بڑی وجہ شدید عدم مساوات ہے، انہوں نے کہا کہ اب تک ملک میں صرف پانچ صوبائی دارالحکومت بنے جبکہ کسی صوبے نے دوسرے یا تیسرے بڑے شہر کو کیپیٹل کے طور پر ترقی نہیں دی۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد آج بھی بنیادی سہولتوں کے لیے لاہور کا محتاج ہے کیونکہ وہ صوبائی دارالحکومت نہیں ہے، اسی طرح انہوں نے کہا کہ کمزور ادارے ترقی کی رفتار کو روک رہے ہیں، جب افراد طاقتور ہو جائیں تو ادارے کمزور ہوتے ہیں اور یہی پاکستان میں ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

بڑے صوبے، کم سہولتیں

چیئرمین دنیا میڈیا گروپ کے مطابق پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے صوبوں کی تقسیم یکطرفہ ہے، پنجاب ملک کی 52 فیصد آبادی رکھتا ہے جس سے وسائل بھی اسی تناسب سے اسی صوبے میں جاتے ہیں، جس پر دیگر علاقوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، انہوں نے کہا کہ غربت ہر صوبے میں موجود ہے اور گورننس کے مسائل بھی قومی سطح پر یکساں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک ترقی نہیں کر رہا، چھوٹے صوبوں میں مسائل حل کرنا آسان ہوگا: میاں عامر محمود

انہوں نے دنیا کے بڑے ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں 39 ریاستیں، چین میں 31، امریکہ میں 50 اور انڈونیشیا میں 34 انتظامی یونٹس ہیں، پاکستان کی آبادی 24 سے 25 کروڑ ہے لیکن اب بھی صرف پانچ صوبے ہیں، ان کے مطابق صوبے کوئی صدیوں پرانی اکائیاں نہیں بلکہ وقت کے ساتھ بننے والا انتظامی نظام ہیں۔

ڈلیوری کا بحران

میاں عامر نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ادارے خود بنیادی ڈیٹا تیار نہ کر سکیں تو ڈلیوری ممکن نہیں رہتی، انہوں نے بتایا کہ 1998 میں پنجاب حکومت نے سرکاری سکولوں کی تعداد گننے کے لیے فوج کی مدد لی، پنجاب میں 60 ہزار اور سندھ میں 40 ہزار سکول ہیں جنہیں مرکزیت کے ساتھ چلانا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ہر بچے پر 4 ہزار 400 روپے ماہانہ اور صحت کے شعبے میں 6 ملین روپے فی بستر سالانہ خرچ کر رہی ہے مگر نتائج مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچ رہے، یہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ مسئلہ بڑے انتظامی ڈھانچے کا ہے جو موثر نہیں رہ سکتا۔

نئے صوبوں کی تجویز

میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نئے صوبوں کی ضرورت ڈلیوری کے لیے ہے، ان کے مطابق ڈویژن کو صوبہ بنانے سے انتظامی حدود پہلے سے طے شدہ ہونے کی وجہ سے تنازعات نہیں ہوں گے اور اخراجات میں بھی کمی آئے گی کیونکہ موجودہ ڈھانچے کو ہی اوپر لایا جائے گا، انہوں نے سادہ فارمولا بیان کیا کہ آبادی کم ہونے سے فی کس انتظامی لاگت میں نمایاں کمی آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں صوبوں کا خاکہ عجلت میں بنایا، مزید صوبے ناگزیر ہیں: میاں عامر محمود

انہوں نے کہا کہ صوبوں کے محکموں کی تعداد 40 یا اس سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے حالانکہ کسی صوبے کو بنیادی طور پر صرف 16 محکموں کی ضرورت ہوتی ہے، غیر ضروری محکموں کی وجہ سے گورننس مزید پیچیدہ ہو رہی ہے۔

سیاسی و عوامی پہلو

خطاب کے بعد سوالات و جوابات کے دوران شرکا نے نئے صوبوں سے متعلق سیاسی اتفاق رائے پر سوال اٹھایا تو میاں عامر نے بتایا کہ مختلف جماعتیں منشور میں صوبے بنانے کا وعدہ کرتی ہیں مگر اقتدار میں آ کر عملدرآمد سے گریز کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پوٹھوہار سمیت کئی علاقوں میں بھی الگ صوبے کی آوازیں موجود ہیں تاہم ملک بھر میں مضبوط عوامی دباؤ ابھی تک نہیں بن سکا۔

میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز اور نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کا مقصد یہی ہے کہ عوامی رائے مضبوط ہو تاکہ سیاسی جماعتوں پر ذمہ داری بڑھے۔