اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو وہ روپ دکھانا شروع کر دیا ہے جو موجودہ دورِ حکومت کے آخر میں دکھانا تھا، مگر سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث دونوں جماعتوں میں اختلافات بہت پہلے ہی پیدا ہو چکے ہیں۔
حکومت اور اس کی بڑی اتحادی جماعت اس وقت آمنے سامنے کھڑی ہیں اور ان کے لب و لہجے میں شدت آتی جا رہی ہے، ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس یا کسی عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا ہے، یوں تو دونوں جماعتوں کے درمیان ڈھکے چھپے انداز میں اختلافات کئی ماہ سے مختلف ایشوز پر چلے آ رہے تھے مگر اب کھل کر سامنے آنا سب کو حیران کر رہا ہے کیونکہ موجودہ حکومتی سیٹ اَپ کا بندوبست طویل عرصے کیلئے بنایا گیا تھا، اتنی جلدی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف کر لینا سیاسی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔
ملک کی بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف تو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اپوزیشن بنچز سے بھی اس کا صفایا ہو رہا ہے، عمر ایوب کے نا اہل ہونے کے بعد ابھی تک ملک میں قائد حزب اختلاف موجود نہیں ہے، اب حکومتی بنچز پر بیٹھی بڑی اتحادی جماعت اپوزیشن بنچز پر جانے کی دھمکی دے رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہے مگر اس کی حمایت کے بغیر نہ تو شہباز حکومت قائم ہو سکتی تھی نہ ہی جاری رہ سکتی ہے، قومی اسمبلی میں اگر نمبر گیم کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس 125 نشستیں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 74 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم کے پاس 22 ، پاکستان مسلم لیگ کے پاس پانچ ، استحکام پاکستان پارٹی کے پاس چار جبکہ پاکستان مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پاس ایک ایک نشست ہے، اس طرح حکومتی بنچز کے تمام نمبر ملا کر 233 بنتے ہیں۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی 74 نشستوں کی حمایت ختم ہو جائے تو حکومت کے پاس صرف 159 کا نمبر بچتا ہے جبکہ اس کو حکومت بنانے یا قائم رکھنے کیلئے درکار نمبر 169 ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر (ن) لیگ حکومت نہیں چلا سکتی، ایسے میں مسلم لیگ (ن) کو آئندہ چند روز میں اس معاملے کو حل کی جانب لے کر جانا ہی ہوگا، یہی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں کچھ بڑے بھی پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سیلاب کے دوران جب بلاول بھٹو نے پنجاب کے کچھ علاقوں کا دورہ کیا تو دبے لفظوں میں عوام کو ملنے والے ریلیف پر تنقید کی، سندھ میں پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر شرجیل میمن سمیت دیگر نے پنجاب حکومت پر تنقید کی، (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کی بجائے پنجاب میں مریم نواز کی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا۔
چند روز قبل مریم نواز نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ پہلے میں چپ رہی ، بجلی کے بلوں پر اعتراض کیا گیا ، نہروں کا مسئلہ بنایا گیا اور اب سیلاب زدگان کی مدد کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ پنجاب پر انگلی اٹھانے والوں کی انگلی توڑ دی جائے گی، پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح پیغام دیا کہ پنجاب نے آپ کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی پنجاب کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائی جائے، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے مریم نواز کی تقریر کو نفرت انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والی تقریر قرار دیا، گزشتہ روز قمر زمان کائرہ کی پریس کانفرنس کے ذریعے بھی (ن) لیگ کو پیغام دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی کے اس طرزِ سیاست پر اعتراض ہے کہ یہ آئینی عہدے لے کر بیٹھے ہیں، حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، حکومت جب عوام کیلئے ریلیف پیکیج لے کر آتی ہے تو اس پر اپنی پوائنٹ سکورنگ شروع کر دیتے ہیں، اربوں روپے کے پیکیجز (ن) لیگ کی حکومت مینج کرتی ہے مگر بجلی کے بلوں میں ریلیف کا معاملہ ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت لینا چاہتی ہے، سوا سات سو ارب روپے کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو وفاق نے قرض لے کر چلانا ہے، کریڈٹ اس کا پیپلز پارٹی لینا چاہتی ہے، چند روز قبل بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا تھا کہ سیلاب متاثرین کی امداد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کی جائے۔
سیلاب نے اتنی تباہی سندھ میں نہیں کی جتنی پنجاب میں کی اور اس صورتحال کو ہینڈل کرنا پنجاب کیلئے ایک بڑا چیلنج بھی تھا، مریم نواز اور ان کی ٹیم سیلاب زدہ علاقوں میں گراؤنڈ پر بھرپور انداز میں نظر بھی آئی مگر صورتحال اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب بلاول نے جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں کے دورے کئے اور وفاقی اور پنجاب حکومت کے اقدامات پر مشورے دینے شروع کئے اور کہا کہ حکومت سیلاب متاثرین کی مدد سے متعلق پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔
مریم نواز نے پیپلز پارٹی کو جواب دیا کہ ہر چیز کا علاج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں، این ایف سی کے تحت آپ کو یکساں فنڈز ملتے ہیں آپ انہیں کہاں لگاتے ہیں؟ وزیر اعلیٰ پنجاب نے نہروں کے معاملے پر بھی پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ پنجاب کا اپنا پانی ہے، نہریں نکالنے پر آپ کو اعتراض کیوں ہے؟ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میرا پانی، میرا صوبہ اور میرے وسائل ہیں پیپلز پارٹی کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے فلور آف دی ہاؤس پر مریم نواز کے بیانات پر رد عمل دیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ گزشتہ چند روز میں جو بیانا ت سامنے آئے ہیں وہ کسی صورت مناسب نہیں ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقریر پر افسوس ہوا، ان حالات میں ہماری لئے مشکل ہو رہا ہے کہ ہم حکومتی بینچوں پر بیٹھے رہیں، اگر عزت سے ہماری بات سنی جائے گی تو ہم ساتھ دیں گے، جہاں مریم نواز کے پیپلز پارٹی سے متعلق مؤقف میں سختی آتی جا رہی ہے وہیں وفاقی حکومت کے وزرا معاملے کو سلجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
گزشتہ روز سپیکر چیمبر میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی اہم ملاقات ہوئی تاکہ صورتحال میں بہتری لائی جا سکے، ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، رانا ثنااللہ ، اعظم نذیر تارڑ اور طارق فضل چودھری نے شرکت کی، پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی نے کی۔
اس ملاقات میں بھی پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیانات پر تحفظات کا اظہار کیا، اس بیٹھک میں دونوں جماعتوں نے مسائل کا حل افہام و تفہیم سے کرنے پر اتفاق کیا، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ بیٹھ کر ہی حل کرنا ہے۔