زمین کے ’پھیپھڑے‘ بند ہو رہے ہیں

Published On 05 November,2025 12:07 pm

لاہور: (محمد حذیفہ) دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کا انکار کرنے والوں کی ایک عام دلیل یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نقصان دہ نہیں بلکہ فائدہ مند گیس ہے، اُن کے مطابق جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھتی ہے تو پودے زیادہ تیزی سے اگتے ہیں، زمین سرسبز ہوتی ہے اور زندگی کیلئے زیادہ سازگار ماحول بنتا ہے۔

وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان فوسل فیول یا معدنی ایندھن جلا کر کاربن خارج کرے تو زمین کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ پودے اس اضافی کاربن کو جذب کر لیتے ہیں، مگر یہ دلیل ادھوری اور گمراہ کن ہے، جیسا کہ اکثر ایسے دعوؤں کے ساتھ ہوتا ہے، اس میں کچھ سچائی ضرور موجود ہے لیکن تصویر کا بڑا حصہ چھپا دیا جاتا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران زمین کے زمینی ماحولیاتی نظام جیسے جنگلات اور چراگاہیں واقعی بڑی مقدار میں کاربن جذب کر رہے ہیں، یہی نظام   کاربن سنک‘‘ کہلاتا ہے، یعنی زمین کے وہ قدرتی حصے جو فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچ کر اپنے اندر محفوظ کر لیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق 1960ء کی دہائی میں جب پہلی بار یہ دریافت ہوا کہ زمین فضا سے کاربن کا ایک بڑا حصہ جذب کر رہی ہے تو سائنسدان حیران رہ گئے، ان کا خیال تھا کہ جتنی مقدار میں پودے کاربن جذب کرتے ہیں اتنی ہی جلد وہ اسے واپس فضا میں خارج بھی کر دیتے ہیں مگر نتائج نے ظاہر کیا کہ زمین ایک نیٹ ابزوربر (Net absorber) ہے یعنی وہ خارج ہونے والے کاربن کا ایک حصہ اپنے اندر روک لیتی ہے۔

یہ نظام اب تک انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تقریباً چوتھائی سے ایک تہائی حصے کو ہر سال جذب کرتا رہا ہے، دوسرے لفظوں میں اگر زمین کے یہ قدرتی ذخیرے کاربن کو نہ روکتے تو آج کرۂ ارض کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار کہیں زیادہ ہوتی اور درجہ حرارت میں اضافہ مزید تیزی سے ہوتا، یہ ایک طرح سے زمین کا قدرتی بریک تھا جو انسانی بے احتیاطیوں کے باوجود ماحولیاتی توازن کو کچھ دیر تک برقرار رکھے ہوئے تھا، لیکن اب یہ بریک ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے کاربن جذب کرنے کا یہ نظام ہمیشہ کیلئے اسی رفتار سے کام نہیں کر سکتا، جنگلات، مٹی، گھاس اور دیگر قدرتی ذخیروں کی جذب کی ایک حد ہے، جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اس نظام پر دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے مثلاً زیادہ گرمی اور طویل خشک سالی درختوں کی افزائش کو متاثر کرتی ہے،جنگلات میں لگنے والی شدید آگ ان درختوں کو جلا دیتی ہیں جو برسوں سے کاربن ذخیرہ کر رہے ہوتے ہیں۔

ایک طرف یہ درخت تباہ ہوتے ہیں دوسری طرف ان کے جلنے سے دوبارہ کاربن فضا میں شامل ہو جاتا ہے، یہی عمل ان ذخائر کو کاربن جذب کرنے کے بجائے خارج کرنے والا بنا دیتا ہے، اسی طرح آرکٹک خطے میں برف کے پگھلنے سے زمین کی گہرائیوں میں محفوظ نامیاتی مادے گلنے سڑنے لگے ہیں اور وہ بڑی مقدار میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر رہے ہیں، میتھین ایک ایسی گیس ہے جو گرمی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ دیر تک روکتی ہے، اس طرح زمین کے قدرتی پھیپھڑے جو اَب تک فضا کو صاف رکھتے تھے، خود آلودگی پھیلانے لگے ہیں۔

تازہ ترین مشاہدات مزید تشویشناک ہیں، 2023ء اور 2024ء میں ہونے والے مطالعات کے مطابق زمین کا مجموعی زمینی کاربن سنک تقریباً ختم ہوتا ہوا دکھائی دیا، سائنسدان ابھی اس کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا یہ وقتی تبدیلی ہے یا زمین واقعی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، اگر یہ رجحان مستقل ثابت ہوا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، زمین کا درجہ حرارت پہلے ہی صنعتی دور سے 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اگر قدرتی کاربن سنک اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے تو فضا میں کاربن کی مقدار زیادہ تیزی سے بڑھے گی، برف پگھلے گی، سمندر گرم ہوں گے اور شدید موسموں، جیسا کہ طوفان، بارشیں، ہیٹ ویوز اور خشک سالی مزید بڑھ جائے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کے اس قدرتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے جنگلات کے تحفظ، درختوں کی افزائش، زمین کے پائیدار استعمال اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنا انتہائی ضروری ہیں، اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا تو زمین کی فضا میں کاربن کا توازن ہاتھ سے نکل جائے گا۔

یہ سچ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پودوں کے لئے خوراک کی حیثیت رکھتی ہے لیکن صرف اس صورت میں جب پانی، درجہ حرارت اور غذائی اجزا کا توازن برقرار ہو، جب گرمی اور خشک سالی کی شدت بڑھ جائے تو اضافی کاربن فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، پودوں کی نشوونما رک جاتی ہے، فصلیں کمزور ہو جاتی ہیں اور زمین بنجر ہونے لگتی ہے، یعنی وہی گیس جسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے منکر زمین کیلئے اچھا قرار دیتے ہیں، زمین کے قدرتی توازن کو برباد کر رہی ہے، کاربن میں اضافے سے وقتی طور پر سبزہ بڑھ سکتا ہے لیکن لمبے عرصے میں یہی سبزہ زرد ہو کر زمین کو مزید گرم کر دیتا ہے۔

سائنسدان اب اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مختلف خطے جیسے ایمیزون کے جنگلات، افریقی سوانا، برفانی ٹنڈرا اور ایشیائی مون سون زون زمین کے کاربن توازن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں، ان تحقیقات کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ ہم کب تک قدرت کے اس تحفے پر انحصار کر سکتے ہیں اور کب ہمیں مکمل طور پر اپنی روش بدلنی ہوگی۔

آخرکار زمین کا نظام بھی ایک جسم کی طرح ہے، اگر ہم اسے مسلسل زہر دیتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب وہ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا، یہی لمحہ زمین کے لئے نہیں انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہوگا۔

اگر کاربن سنک ختم ہو گیا تو؟

٭فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تیزی سے بڑھے گی۔
٭درجہ حرارت میں تیز اضافہ ہوگا۔
٭ہیٹ ویو، خشک سالی، سیلاب عام ہوں گے۔
٭زمین کا قدرتی توازن ٹوٹ سکتا ہے۔

محمد حذیفہ کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم ہیں، ان کے بلاگ مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔