کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش، قائمہ کمیٹی کے سپرد

Published On 08 November,2025 01:39 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا، چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کردیا، اپوزیشن نے شور شرابہ کیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔

معمول کی کارروائی معطل

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج معمول کی کارروائی معطل کر کے بل پیش کر لیتے ہیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے معمول کی کارروائی معطل کردی۔

یہ خبر بھی پڑھیں: 27 ویں ترمیم پر صدر و اتحادی جماعتوں کا شکریہ، نواز شریف سے رہنمائی لی: وزیراعظم

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو پیش کر دیتے ہیں، کمیٹی اپنا کام کرے گی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، مشترکہ کمیٹی میں قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ارکان بیٹھتے ہیں، بل کمیٹی کو جائے گا، کمیٹی میں دیگر ارکان کو بھی مدعو کریں گے جو کمیٹی کے رکن نہیں ہیں، بل پر ووٹ ابھی نہیں ہو گا، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے۔

چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن سے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں، بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیتا ہوں۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے شور شرابہ پر کہا کہ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، ہم شام تک بیٹھے ہیں آپ اپنی بات کہیں، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے، ہم چُپ کر کے سنیں اور یہ ایسے بولتے رہیں یہ نہیں چلے گا۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی سیٹ خالی ہے، پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی قائم کریں، ہمیں ابھی ڈرافٹ ملا ہے، ڈرافٹ نہیں پڑھا، اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی تک بل پر بحث نہیں ہوسکتی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام جماعتوں کی مشاورت کے بعد وفاقی آئینی عدالت کی تجویز لائے ہیں، مقدمات عدالت کا 40 فیصد وقت لے جاتے ہیں، 26 ویں ترمی پر جب مشاورت ہوئی تودوستوں نے کہا اتنی بڑی تبدیلی کی طرف نہ جائیں، 26ویں ترمیم کے وقت دوستوں نے کہا آئینی بنچز بنا کر معاملات حل کریں۔

انہوں نے کہا کہ وہ بل دو تہائی اکثریت سے پاس ہوا اور آئینی بنچ بن گئے، آرمی چیف کی معرکہ حق کے دوران خدمات پر انہیں فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا، آرمی چیف کے عہدے کا ٹائم فریم ہوتا، فیلڈ مارشل اعزاز ہے اس کا ٹائم فریم نہیں، آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ پوری دنیا میں تاحیات ہے، اس ٹائٹل کو آئینی تحفظ دینا ہے، اس ٹائٹل کو واپس لینےکا اختیار وزیراعظم نہیں پارلیمنٹ کے پاس ہوگا، موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ عہدہ ختم ہوگا، ٓرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کی ذمہ داریاں سونپنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹریٹجک معاملات پر بہت احتیاط سے بات کرنی چاہیے، شخصیات کیلئے نہیں ملک کیلئے ترامیم کی جاتی ہیں، سو موٹو کا اختیار ہم نے ختم کیا ہے، تاکہ پھر کوئی چیف جسٹس آکر ہسپتالوں کے چکر نہ لگائے، کسی کو پھانسی پہ نہ لٹکائے، دن پھرتے رہتے ہیں۔

مجوزہ بل مشترکہ کمیٹی کے سپرد

بعد ازاں سینیٹ نے آئینی ترمیم کا مجوزہ بل مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا، اس سلسلے میں سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین کو بھی دعوت دی جائے گی، مشترکہ کمیٹی کی صدارت دونوں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین مشترکہ طور پر ہی کریں گے۔

اپوزیشن ارکان کا اظہار خیال

دورانِ اجلاس پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پورے ایوان کو کمیٹی کی شکل دے دی جائے۔ ہم نے ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ ابھی تک نہیں پڑھا۔ اپوزیشن کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔

سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ یہ ترامیم اتفاق رائے کے بغیر ایوان میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ہم اس ترمیم کے بعد پاکستان کے لوگوں کو کیسے اکٹھا رکھیں گے۔

سینیٹ اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں مفصل بحث کی جا سکے گی۔ قائد حزب اختلاف کی تقرری چیئرمین سینیٹ کا اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جناب چیئرمین آپ کا استحقاق ہے، آپ تقرری کریں گے۔

اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ بھی جاری رہا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی کا اجلاس طلب

بعد ازاں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ قانون و انصاف کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا، جس کی صدارت قومی اسمبلی اور سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین مشترکہ طور پر کریں گے، قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک ہیں جب کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی کے سربراہ فاروق ایچ نائیک ہیں۔

اس سے قبل بل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا، اب بل کا مسودہ سینیٹ اراکین کے سامنے بحث کے لیے پیش کیا گیا ہے جس پر اراکین کی جانب سے اپنی آرا دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

27 ویں ترمیم کا مسودہ

قبل ازیں 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آگیا تھا جس کے مطابق آرمی چیف کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لیکر وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔

دنیا نیوز کو ملنے والے مسودے کے مطابق 27 آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 42 اور 59 میں ترمیم کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی کلاز 5 میں لفظ سپریم کو فیڈرل کانسٹیٹیوشنل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

27 ویں ترمیم کے تحت ‘وفاقی آئینی عدالت’ کے قیام کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت، آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر وفاقی آئینی عدالت کو دیے جائیں گے، آئین کا آرٹیکل 184 ختم کر دیا جائے گا، ازخود نوٹس کا اختیار ختم ہوگا۔ آئینی مقدمات اب سپریم کورٹ نہیں، وفاقی آئینی عدالت سنے گی، سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور عمومی مقدمات کی عدالت رہے گی۔

مجوہ مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور چاروں صوبوں سے برابر نمائندگی ہو گی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت 3 سال مقرر ہو گی، چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی حیثیت محدود ہو جائے گی۔

مسودہ میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی تجویز کی گئی ہے، آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔

چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویز

27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں فوجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی تجویز کی گئی ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے آرمی چیف کو “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا عہدہ دینے کی تجویز ہے، آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تاحیات درجہ حاصل ہوگا۔

ججز تقرری میں وزیراعظم اور صدر کا کلیدی کردار
27 ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی بدلا جائے گا، جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دونوں شامل ہوں گے، تقرری میں وزیرِاعظم اور صدر کو کلیدی کردار حاصل ہوگا، پارلیمنٹ کو آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار ملے گا۔

آئین کے آرٹیکل 42، 63 اے، 175 تا 191 میں ترمیم کی تجویز ہے جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات میں نمایاں کمی ہو گی، ماہرین نے ترمیم کو عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں بڑا تغیر قرار دیا، اپوزیشن جماعتوں نے مجوزہ 27 ویں ترمیم پر شدید تحفظات ظاہر کیے، سیاسی حلقوں میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر بحث تیز ہو گی۔