اسلام آباد: (دنیا نیوز) سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کا 27 ویں ترمیم کے لیے مشترکہ اجلاس آج ہی طلب کر لیا گیا۔
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس اڑھائی بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں شروع ہو گا جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی۔
اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی اور سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین مشترکہ طور پر کریں گے، قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک ہیں جب کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی کے سربراہ فاروق ایچ نائیک ہیں۔
سینیٹ کے اراکین کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، مشترکہ کمیٹی میں ارکان کے علاوہ اپوزیشن کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔
واضح رہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے اور اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ پارٹی پوزیشن کے مطابق حکومتی بینچز پر اس وقت پیپلزپارٹی 26 سینٹرز کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ حکومتی بینچز پر مسلم لیگ نون کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ارکان ہیں، حکومتی بینچز پر ایم کیو ایم پاکستان کے 3، نیشنل پارٹی کا ایک اور پاکستان مسلم لیگ ق کا بھی ایک سینیٹر ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی بینچز پر 3 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں سینیٹر عبدالکریم، سینیٹر عبدالقادر اور محسن نقوی ہیں۔
تین سینیٹرز انوار الحق کاکڑ، اسد قاسم اور سینیٹر فیصل واوڈا نہ حکومتی اور نہ ہی اپوزیشن بینچز پر بیٹھتے ہیں۔ یہ تینیوں سینیٹرز حکومت کو ووٹ دیتے ہیں، اس طرح سینیٹ میں حکومت کو 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
اپوزیشن بینچز پر ایک آزاد سینیٹر نسیمہ احسان بھی ہیں جنہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دیا تھا جبکہ اپوزیشن بینچز پر اے این پی کے 3 سینئٹرز ہیں جنہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دیا تھا۔ اس طرح سے حکومت کو 65 سینیٹرز کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے 14 ارکان ہیں، اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 6 آزاد ارکان ہیں، ایک نو منتخب سینیٹر جلد حلف اٹھالیں گے تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک آزاد رکن مراد سعید نے ابھی تک حلف اٹھانا ہے۔
اپوزیشن بینچز پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے 7، مجلس وحدت مسلمین کا ایک اور سنی اتحاد کونسل کا ایک رکن موجود ہے، اس طرح اپوزیشن بینچز پر 30 ارکان موجود ہیں جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔



