لاہور: (محمد اشفاق) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے بھی استعفیٰ دے دیا۔
جسٹس شمس محمود مرزا نے اپنا استعفیٰ صدرِ مملکت کو بھجوا دیا، وہ اپنے چیمبر آئے اور چیمبر خالی کر کے بغیر پروٹوکول واپس روانہ ہو گئے۔
جسٹس شمس محمود مرزا نے 22 مارچ 2014 کو لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا ، جسٹس شمس محمود مرزا نے 2028 میں ریٹائر ہونا تھا۔
جسٹس شمس محمود مرزا سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ضیا محمود مرزا کے صاحبزادے ہیں۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا 27 ویں آئینی ترمیم کے بعد تبادلے کا امکان تھا، جسٹس شمس محمود مرزا لاہورہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے بھی ممبر تھے۔
یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں جسٹس شمس محمود مرزا کے خلاف سرکاری وکیل کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 27 ویں آئینی کی منظوری پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے، ان کے استعفے صدرِ مملکت نے منظور بھی کر لیے ہیں۔
اپنے استعفے میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا ہے، اس ترمیم نے ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف عام آدمی سے دور، کمزور اور طاقت کے سامنے بے بس ہوگیا ہے، ملک کی واحد اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم کر کے اور عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے سے ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ آئینی نظم و نسق کی ہیئت میں اس طرح کی تبدیلیاں زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں، اس نازک موڑ پر میرے سامنے دو ہی راستے ہیں، یا تو میں ایک ایسے نظام کا حصہ بن کر رہوں جو اس ادارے کی ہی بیخ کنی کرتا ہے، جس کے تحفظ کا میں نے حلف لیا ہے، یا پھر احتجاجاً اس کے خلاف کھڑے ہوکر عہدہ سے دستبردار ہوجاؤں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استعفیٰ کے متن میں کہا کہ عہدے سے وابستہ رہنا ایک آئینی دراندازی پر خاموش رضا مندی ہوتی، 27 ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی ، میں نے ادارے کی عزت، ایمانداری اور دیانت کے ساتھ خدمت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفیٰ میں لکھا تھا کہ جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا وہ باقی نہیں رہا، میں باضابطہ طور پر مستعفی ہوتا ہوں، 11 سال پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، 4 سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا، مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اٹھایا۔
انہوں نے لکھا کہ 27 ویں ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا جس میں تشویش کا اظہار کی، میں نے اپنی بہترین صلاحیت اور حلف کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی ہے، آج یہ وہی حلف ہے جو مجھے اپنا باضابطہ استعفیٰ پیش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ آئین جس کو برقرار رکھنے اور دفاع کرنے کا حلف اٹھایا تھا، اب نہیں رہا، میں نے پوری کوشش کی کہ خود کو قائل کروں کہ آئین زندہ ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ عہدہ اور لباس میرے لیے عزت کا باعث تھے مگر اب میں ان کو آخری بار اتار رہا ہوں اور فوری طور پر جج سپریم کورٹ آف پاکستان کے عہدے سے اپنا باضابطہ استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔



