لاہور: (روزنامہ دنیا) 2018ء میں سائنس کے شعبے سے منسلک صحافی بہت سی حیران کن اطلاعات سامنے لائے۔ ان میں سے چار اہم کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
کلوگرام کا تعین
نومبر میں دنیا بھر کے سائنس دان عالمی کانفرنس برائے اوزان و پیمائش فرانس میں شریک ہوئے۔ اس میں ’’کلوگرام‘‘ کی تعریف بدلنے کے حق میں بذریعہ ووٹ رسمی فیصلہ ہوا جس کا اطلاق چند ماہ بعد کیا جائے گا۔
کلوگرام کوکوائنٹم مکینکس کے تصور ’’پلانک کانسٹینٹ‘‘ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کلوگرام کی تعریف بدل کر کون سا معرکہ سر کیا گیا؟
قبل ازیں کلوگرام کا پیمانہ پلاٹینم اور اریڈیئم کا ایک ٹکڑے تھا۔ یہ فرانس میں واقع بین الاقوامی بیورو برائے اوزان و پیمائش میں 1889ء سے رکھا ہے لیکن کسی حادثے میں یہ کھو بھی سکتا ہے اور چوری بھی ہو سکتا ہے۔
اس امر کے شواہد بھی موجود ہیں کہ برس ہا برس کے دوران اس کے حجم میں برائے نام سہی لیکن کمی ہوئی۔ کلوگرام دنیا بھر میں ایک معیار ہے اس لیے اس کی بنیاد کو بدل دیا گیا تا کہ یہ محفوظ رہے۔
حیات کا وزن
مئی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں دنیا میں حیات کے کل وزن کا تخمینہ پیش کیا جو 550 گیگا ٹن ہے۔ تمام انسان اس کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ اس کے مطابق اگر ایک بہت بڑے ترازو میں دنیا کے تمام بیکٹیریا کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور انسانوں کو دوسری طرف تو بیکٹیریا کا پلڑا بھاری ہو گا کیونکہ زمین پر بیکٹیریا ہم سے 1166 گنا زیادہ وزن رکھتے ہیں۔
سورج کا سفر
ایک سوال نے کئی دہائیوں سے شمسی سائنس دانوں کو پریشان کر رکھا ہے کہ سورج کی فضا اس کی سطح سے زیادہ گرم کیوں ہے؟ بالخصوص اس سوال کا جواب پانے کے لیے امریکی خلائی ادارہ ناسا نے اگست میں سورج کی سطح کو چھونے کی خاطر مشن روانہ کیا۔ اس کا نام ’’پارکر سولر پروب‘‘ ہے۔
یہ مشن 2025ء میں مکمل ہو گا۔ سورج کے پاس اسے 1371 سینٹی گریڈ حدت کو برداشت کرنا پڑے گا لیکن انجینئرنگ کے کمال کے سبب یہ حسب معمول کام کرتا رہے گا۔
درختوں کا کمال
موسمیاتی تبدیلی کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور دنیا میں گرمی کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ حالیہ رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کا باعث بنتے ہیں اس کا تقریباً نصف ہی فضا میں رہتا ہے، باقی جنگلات، سبزہ زار اور مینگروو جذب کر لیتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ درخت بہت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ ایمازون جنگل کا ایک درخت سالانہ 48 پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے جنگلات کو تباہی سے بچانا ہو گا اور شجر کاری کرنا ہو گی۔