کنکریٹ بیٹری… گھر اپنی توانائی خود پیدا کریں گے؟

Published On 07 October,2025 12:22 pm

لاہور: (محمد حذیفہ) دنیا تیزی سے ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں توانائی کے نئے اور پائیدار ذرائع کی تلاش انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے، شمسی توانائی، ہوا سے بجلی، ہائیڈرو پاور اور دیگر ذرائع کے باوجود ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم ان ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کو سٹور کیسے کریں؟

روایتی بیٹریاں اگرچہ یہ کام کرتی ہیں مگر ان کی لاگت، محدود عمر اور ماحولیاتی اثرات کے باعث سائنسدان مسلسل نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں، اسی تناظر میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے محققین نے ایک حیرت انگیز تجربہ کیا ہے، یہ ایک ایسی کنکریٹ کی ایجاد ہے جو خود بیٹری کا کام کرتی ہے۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ عمارتوں، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی عام کنکریٹ میں اگر کچھ خاص تبدیلیاں کی جائیں تو یہ تعمیراتی میٹریل بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتی ہے،MIT کے سائنسدانوں نے کنکریٹ میں کاربن بلیک (Carbon black) کے نہایت باریک ذرات، الیکٹرولائٹس اور دیگر کیمیائی اجزا شامل کر کے ایک نئی قسم کی الیکٹران موصل (Electron conducting) کنکریٹ تیار کی ہے جسے ec³ یا Electron-conducting carbon concreteکہتے ہیں، یہ کنکریٹ اندرونی طور پر ایک ایسی نینو سطحی جال بنا لیتی ہے جو بجلی کے بہاؤ اور ذخیرے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سادہ الفاظ میں یہ وہی عمل ہے جو عام بیٹریوں میں ہوتا ہے، مگر اب یہ عمل عمارت کی دیواروں یا فرش کے اندر ممکن ہو رہا ہے، محققین نے اس خاص کنکریٹ سے ایک چھوٹا سا محرابی ڈھانچہ بنایا جو 9 وولٹ کے ایک ایل ای ڈی بلب کو روشن کرسکتا تھا، حیرت انگیز طور پر جب اس کنکریٹ پر دباؤ یا جھٹکا پڑا تو ایل ای ڈی کی روشنی میں اتار چڑھاؤ محسوس ہوا جس سے اندازہ ہوا کہ یہ مواد نہ صرف بجلی ذخیرہ کرسکتا ہے بلکہ ساختی دباؤکا احساس بھی ظاہر کر سکتا ہے، یوں ایک ہی وقت میں یہ توانائی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سٹرکچرل مانیٹرنگ کا کام بھی کر سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ایک ریفریجریٹر کے سائز کے برابر کنکریٹ کا بلاک تقریباً دو کلو واٹ آور (kWh) توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ وہ مقدار ہے جو ایک عام گھر کے چند بلب یا پنکھے چند گھنٹوں تک چلانے کے لئے کافی ہے، اگر پورے مکان یا عمارت میں اسی مواد کا استعمال کیا جائے تو عمارت خود ایک بڑی بیٹری کی مانند بن سکتی ہے۔

ممکنہ فوائد

٭ایک ہی مواد تعمیرات کے لئے استعمال ہو اور وہ توانائی بھی محفوظ کرے، یہ دوہرا فائدہ ہے۔
٭اگر کسی عمارت کی چھت پر سولر پینل لگے ہوں تو وہ بجلی براہِ راست انہی دیواروں میں محفوظ ہو سکتی ہے۔
٭الگ بیٹری سٹوریج کی ضرورت نہیں، ساری توانائی عمارت کے اندر ہی جمع ہوگی۔
٭کم لاگت میں بڑے پیمانے پر قابلِ تجدید توانائی کے استعمال کو ممکن بناتی ہے۔

اگرچہ خیال دلکش ہے، لیکن عملی سطح پر کئی رکاوٹیں موجود ہیں، مثلاً یہ کہ فی الحال یہ بیٹری کنکریٹ عام لیتھیم آئن بیٹری کے مقابلے میں بہت کم توانائی ذخیرہ کر سکتی ہے، کنکریٹ درجہ حرارت، نمی اور وقت کے ساتھ پھٹتی یا کمزور ہوتی ہے، ایسے میں برقی خصوصیات کتنی دیر برقرار رہیں گی، یہ بڑا سوال ہے، اس میں استعمال ہونے والے الیکٹرولائٹس وقت کے ساتھ زنگ آلود یا غیر فعال ہو سکتے ہیں۔

نینو سطح کے کاربن بلیک اور خصوصی الیکٹرولائٹس سستے نہیں، بڑے پیمانے پر ان کی تیاری ابھی مشکل اور مہنگی ہے، عمارتوں میں برقی مواد کے استعمال کے لئے نئے حفاظتی معیار طے کرنا ہوں گے، اگر کسی حصے کی برقی صلاحیت کم ہو جائے تو پوری دیوار یا بلاک بدلنا پڑ سکتا ہے۔

سائنس کا نیا تصور: زندہ عمارتیں

یہ ایجاد ہمیں ’’زندہ عمارتوں‘‘ (Living Buildings) کے تصور کے قریب لے جا رہی ہے جہاں دیواریں صرف ٹھوس ڈھانچے نہیں بلکہ فعال نظام ہوں گی، وہ توانائی جمع کریں گی، اس کا استعمال کریں گی اور اپنی کارکردگی کا خود تجزیہ بھی کریں گی، یہی وہ تصور ہے جو پائیدار شہروں (Sustainable Cities) اور گرین انرجی کے خواب کو حقیقت سے قریب لا سکتا ہے۔

اگرچہ ابھی یہ ٹیکنالوجی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس میں کئی عملی مشکلات باقی ہیں مگر اس کا نظریاتی اثر بہت گہرا ہے، اگر کنکریٹ بیٹری کامیابی سے تجارتی سطح پر آ گئی تو عمارتیں، پل، سڑکیں، حتیٰ کہ شہر بھی خود توانائی کے ذخیرے بن جائیں گے۔

محمد حذیفہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں، ان کے بلاگ مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔