سان تیاگو: (ویب ڈیسک) 45برس قبل ایک فضائی حادثے کے بعد فریڈرک نینڈ و پیراڈ و 45سال قبل انسانوں کی لاشیں کھا کر زندہ رہے ۔
پیڈرو نے اپنی کتاب ’زندہ‘ میں اس ہولناک واقعے کا مکمل احوال پیش کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس حادثے میں 29 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 15 افراد بچ گئے، بچ جانے والے لوگوں کے پاس کھانا ختم ہوگیا اور مسلسل 72 روز تک وہ مرنے والوں کا گوشت کھاکر زندہ رہے۔
آخری دنوں میں کچا پکا گوشت کھاکر ان کے پیٹ میں درد رہنے لگا تھا اور وہ شدید نقاہت محسوس کرتے رہے تھے۔ پیراڈو نے بتایا کہ زخمی مسافر کراہ رہے تھے اور دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جانے لگے، ان کی والدہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن فوت ہوئیں اور اس کے بعد کل 17 افراد مزید ہلاک ہوئے جن میں ان کی چھوٹی بہن بھی تھی جس نے پیڈرو کے ہاتھوں میں دم توڑا۔
سانحہ کے بعد 16 مسافر ہی بچ پائے جن میں زیادہ تر رگبی کے کھلاڑی تھے جبکہ پیڈرو کی عمر 22 برس تھی۔ انہوں نے جہاز کی نشستوں کو پھاڑ کر انہیں چادر کی صورت دی اور سردی کا مقابلہ کیا جبکہ برف پگھلا کر اس کا پانی پیا، لیکن کھانے کو کچھ نہ تھا کیونکہ بھوک اور نقاہت کے مارے موت قریب سے قریب تر ہورہی تھی۔
مسلسل سات روز بھوکا رہنے کے بعد ایک شخص نے مردہ انسانوں کو کھانے کا مشورہ دیا جن کی لاشیں برف میں دبی رہنے کی وجہ سے بہتر حالت میں تھیں جبکہ جہاز کے باورچی خانے سے کچھ بسکٹ، جام جیلی، چاکلیٹ اور شراب کی بوتلیں ہی مل سکی تھیں جو ختم ہوچکی تھیں۔
سب سے پہلے پیراڈو نے انسانی گوشت کھایا اور اس کے بعد بقیہ ساتھیوں نے اسے کراہت سے استعمال کیا، اس طرح یہ لوگ انسانی گوشت کھا کر زندہ رہ گئے یہاں تک کہ انہیں بچانے کیلئے حفاظتی ٹیمیں اس جگہ پر پہنچ گئیں۔