نئی دہلی: (اے ایف پی) مودی بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانا چاہتے ہیں، وہ اپنے ہندو قوم پرست نظریے پر جارحانہ طریقے سے عمل پیرا ہیں، کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی ملک بدری کے واقعات سے ان خدشات کو توقیت ملی، مگر بابری مسجد کے فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
عالمی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق متنازعہ بھارتی قانون ان خدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ وزیراعظم مودی سیکولر اور اجتماعیت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو قوم بنانا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر جوکہ بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس کی خصوصی حیثیت اور جزوی خود مختاری ہندو قوم پرستوں کو ایک عرصہ سے کھٹک رہی تھی، مودی حکومت نے 5 اگست کو اسے ختم کر کے دہلی کے ماتحت دو علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر مودی نے دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی اور وہاں کرپشن پر قابو پانے کیلئے کیا گیا ہے جبکہ کشمیریوں کی نظر میں اس کا مقصد ہندوؤں کو بسا کر علاقے کی علیحدہ شناخت ختم کرنا ہے۔
ادھر آسام میں رواں سال شہریوں کی رجسٹریشن کے نام پر 19 لاکھ افراد کو شہریت کی فہرست سے نکال دیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، انہیں حراستی کیمپوں یا ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی کے دست راست امت شا شہریوں کے قومی رجسٹر کا اطلاق پورے ملک پر کرنے کے عزم کا اظہا رکر چکے ہیں تاکہ 2024 تک غیروں کو ملک بدر کیا جا سکے۔ مسلمانوں کی نظر میں امیت شا کی نظر میں غیروں سے مراد مسلمان ہیں، جنہیں مودی کے پہلے دور میں نصابی کتب سے مسلمانوں کا کردار حذف کرنے کے علاوہ ان تمام شہروں کے نام تبدیل کرتے دیکھا گیا جوکہ اسلامی تاثر دیتے تھے۔
باقی کسر بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے کر پوری کر چکی ہے جوکہ مودی کے حامیوں کی نظر میں ایک بڑی فتح ہے۔ 1980 کی دہائی سے اس مندر کی تعمیر مودی کی جماعت بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے میں شامل ہے، امت شا مندر کی تعمیر چار ماہ میں مکمل کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مسجد کے انہدام کو جائز قرار دیتے کے مترادف ہے، اس فیصلے نے غنڈہ گردی اور تشدد کے مزید واقعات کی راہ ہموار کر دی ہے۔ بی جے پی کا نیا اقدام ہمسایہ ملکوں سے آنیوالے لاکھوں غیر قانونی تارکین کیلئے شہریت کا حصول آسان بنانا ہے، جن میں صرف ہندو، سکھ، جین، بدھ مت کے پیروکار اور مسیحی شامل ہیں۔ شہریت کے نئے قانون کیخلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہروں میں شمال مشرقی ریاستیں پیش پیش ہیں، انہیں تشویش ہے کہ نیا قانون بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین کیلئے شہریت کی راہ ہموار کرے گا جن میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی کے پروفیسر اشوک سوآن نے نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بھارتی جمہوریت کی نوعیت سیکولر ہے، مگر مودی اکثریت کی بنیاد پر طاقت حاصل کرنے میں لگے ہیں جس میں اقلیتی حقوق کی کوئی گنجائش نہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس نے گزشتہ ہفتے شہریت کے نئے قانون پر سخت تشویش کا اظہا رکیا تھا۔ امریکی دفتر خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنے آئین اور جمہوری اقدار کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ بی جے پی کے ایجنڈے میں مذہبی اقلیتوں کے مخصوص قوانین تحلیل کر کے شادی، خاندانی امور اور موت سے متعلق یکساں سول ضابطہ رائج کرنا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے مائیکل کوگل مین نے کہا بھارت میں ہندو قوم پرست ایجنڈے پر جارحانہ طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے، جس کے مضمرات کئی عشروں سے رائج سیکولرازم اور اجتماعیت پر مبنی بھارتی جمہوریت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کے بارے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، مگر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔