بھارت تیزی کیساتھ منظر سے غائب ہو رہا ہے

Last Updated On 07 March,2020 12:48 pm

منموہن سنگھ ( سابق بھارتی وزیراعظم ) عالمی سطح پر اب تک بھارت کو ایک ملک کا درجہ حاصل تھا جہاں لبرل جمہوریت رائج تھی، لیکن میں بوجھل دل کے ساتھ یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اب بھارت اپنے اس اعزاز اور امتیاز سے محروم ہوچکا ہے، اب بھارت کا تشخص یہ ہوگیا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں (مذہبی) اکثریت کو مکمل بالا دستی حاصل ہوچکی ہے اور جو غیر مستحکم اور مایوس کن اقتصادی حالات کا شکار ہے۔ یہ ایک افسوسناک لیکن نا قابل تردید حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت کئی بڑے خطرات میں گھرچکا ہے۔

ان میں رو بہ زوال اقتصادی صورتحال، معاشرے میں روا داری کا سنگین فقدان اور عالمی سطح پر رونما ہونے والا وبائی مرض شامل ہے، انسانی صحت اور سلامتی کو لاحق کورونا وائرس کے باعث لاحق ہونے والی بیماری COVID-19 یقیناً ایک ایسا ہولناک خطرہ ہے جو بیرون ملک سے آیا ہے، لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سماجی عدم رواداری، بے چینی اور عدم برداشت ہی نہیں بلکہ تشویشناک اقتصادی مسائل تو ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں، میں بہت تشویش کے ساتھ اس اندیشے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تینوں خطرات نہ صرف بھارت کے چہرے اور اس کی روح کو مسخ کر دیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کو اب تک اقتصادی طور پر ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری طاقت کا جو مقام حاصل تھا اس میں بھی نمایاں کمی ہو جائے گی۔

گزشتہ چند ہفتوں سے دہلی بدترین تشدد کا شکار ہے، تقریباً 50 بے قصور بھارتی شہریوں کو کسی جواز کے بغیر موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے، سیکڑوں شہری زخمی ہوچکے ہیں، خود سر اور قانون شکن عناصر نے پورے معاشرے کو کشیدگی کا شکار کر کے مذہبی عدم بر داشت کی آگ بھڑکا دی ہے، اس کے دہکتے ہوئے شعلوں سے جامعات،عوامی مقامات اور لوگوں کے گھر تک محفوظ نہ رہ سکے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان انتہا پسند عناصر نے اپنی ا ن حرکتوں سے بھارتی تاریخ کے سیاہ ادوار کی تکلیف دہ یاد تازہ کردی، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے اس عہد کو بھلا دیا کہ ان کا اولین فریضہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے، انصاف فراہم کرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ میڈیا نے بھی جسے جمہور یت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے بری طرح مایوس کیا۔ ‘‘قوم کا مسخ چہرہ ’’چونکہ انتہا پسند اور امن دشمنوں پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس لیے پورا ملک بہت تیزی سے معاشرتی کشیدگی کی آگ میں گھرتا چلا جارہا ہے، اس لیے خطرہ ہے کہ ان عناصر کے ہاتھوں کہیں بھارت کا چہرہ ہی مسخ نہ ہوجائے۔

یہ وہ آگ ہے جسے صرف وہی عناصر بجھا سکتے ہیں جنہوں نے یہ آگ بھڑکائی ہے، یہ کہنا ضروری ہے کہ تشدد کی موجودہ لہر کا جواز پیش کرنے کیلئے بھارت کے ماضی کے بعض واقعات کا حوالہ دینا نہ صرف ناپختہ سوچ کا مظہر ہے بلکہ ایک سعی لاحاصل ہوگی، یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس وقت مذہبی تشدد کا کوئی بھی واقعہ ہو وہ مہاتما گاندھی کے بھارت کے چہرے پر بدنما داغ ہے، صرف چند برس قبل عالمی سطح پر بھارت کو ایک ایسے ملک کا درجہ حاصل تھا جو لبرل جمہوری نظام کے تحت تیزی سے اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، لیکن اب صو رتحال اس کے برعکس ہے ، اب بھارت کا تشخص یہ ہوتا جارہا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو (مذہبی) اکثریت کی مکمل بالادستی کا شکار ہونے کے بعد سنگین اقتصادی مسائل میں گھرتا جا رہا ہے، اس مرحلے پر جب کہ بھارتی معیشت مشکلات کا شکار ہے ملک کے اندر مختلف طبقات کے درمیان کشیدگی سے اقتصادی زوال کا عمل مزید تیز ہوجائے گا۔

اس حقیقت کو تسلیم کیا جاچکا ہے کہ اس وقت بھارتی معیشت کے ابتلا کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ملک میں نجی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے، موجودہ ملکی حالات کے باعث تاجروں اور صنعتکاروں سمیت سرمایہ کار نئے منصوبے لگانے سے گریز کر رہے ہیں، ان کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ ان حالات میں وہ کسی بھی قسم کا رسک لینا نہیں چاہتے، ملک میں مذہبی کشیدگی اور معاشرتی بے امنی کی وجہ سے سرمایہ کار وں کے اندیشوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، معاشرے میں سکون ، ر واداری اور ہم آہنگی اقتصادی ترقی کی بنیادیں ہوتی ہیں، لیکن افسوس یہ بنیادیں اب غیر مستحکم ہوکر لرز رہی ہیں، ان حالات میں ٹیکسوں کی شرح میں جس قدر بھی کمی کردی جائے، کارپوریٹ سیکٹر کو خواہ جو بھی ترغیبات دی جائیں نہ تو ملکی اور نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لگانے پر آمادہ ہوں گے ، کیونکہ جہاں ہر وقت یہ خطرہ لاحق ہو کہ قریب ہی کسی جگہ اچانک تشدد کی کارروائیاں شروع ہوجائیں گی وہاں کوئی اپنا سرمایہ لگانے پر کیسے آمادہ ہوگا ؟ سرمایہ کاری میں کمی کا لازمی نتیجہ روزگار اور آمدنی میں کمی ہوتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں ملک کے اندر اشیا کے صرف یا استعمال (CONSUMPTION ) اور طلب میں بھی کمی ہوجائے گی جو اقتصادی بہتری کیلیے ایک بڑا منفی عنصر ہے ، کیونکہ اشیا کی طلب میں کمی ہوجائے تو نجی سرمایہ کاری کے امکانات مزید کم ہوجاتے ہیں، یہ ہے وہ صورتحال جس میں بھارت کی معیشت گھر چکی ہے۔

ہم نے خود اٍپنے لیے جو مسائل پیدا کرلیے ہیں ان کے علاوہ کورونا وائرس (COVID-19) بھی جو سب سے پہلے چین میں نموار ہوا ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ انسانی صحت اور سلامتی کیلئے یہ سنگین خطرہ مزید کس قدر بڑھے گا اور عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس کے باوجود ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار رہنا چاہیے، کیونکہ شہریوں کی صحت اور سلامتی کیلئے لاحق ایسا کوئی بھی خطرہ کسی بھی ملک کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے، چونکہ ماضی قریب میں بھارت کو صحت عامہ کے حوالے سے اس قدر وسیع بنیاد رکھنے والی کسی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب اجتماعی طور پر اس خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار رہیں، یہ تیاری قومی سطح پر مشنری جذبے کے ساتھ ہونی چاہیے۔

‘ COVID-19 سے نمٹنا’’ دنیا بھر کی اقوام اس خطرے کو ممکنہ حد تک کم کرنے کیلئے متحرک ہوچکی ہیں، چین نے اپنے بعض بڑے شہروں اور عوامی مقامات پر لوگوں کی آمد و رفت پر عملی طور پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، اٹلی سکولوں کو عارضی طور پر بند کر رہا ہے، امریکا نے ایک جانب ممکنہ طور پر متاثرہ شہریوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا عمل شروع کر دیا ہے تو دوسری جانب وہ اس بیماری کا علاج دریافت کیلئے پوری سرگرمی کے ساتھ ریسرچ میں مصروف ہے، اسی طرح دیگر کئی ممالک نے بھی اس بیماری سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کیلیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے ، اسی طرح بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ مستند ماہرین پر مشتمل ایسی ٹیمیں تشکیل دے جو اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے مشنری جذبے کے ساتھ اس ہولناک مسئلے کا حل تلاش کرنے کی جدوجہد کریں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے ماہرین دیگر ممالک کے سائنسدانوں کی نسبت اس معاملے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ ہولناک وائرس اس قدر بڑٖے پیمانے پر بھارت میں داخل ہوگا یا نہیں، یہ بات تو واضح ہے کہ اس وائرس کے بہت وسیع اور مہیب اقتصادی اثرات ہوں گے، عالمی بینک اور تنظیم برائے اقصادی تعاون و ترقی(OECD) پہلے ہی عالمی اقتصادی افزائش میں کمی کے خطرے کی پیشگوئی کرچکے ہیں، یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس وبا کے نتیجے میں چین کی معیشت سکڑ کر رہ جائے گی، اگر ایسا ہوا تو یہ 1970 کے ثقافتی انقلاب کے بعد پہلا واقعہ ہوگا، یہ ایک بہت اہم بات ہوگی کیونکہ اس وقت عالمی معیشت میں چین کا حصہ تقریباً 1 /5 ( یا 20 فیصد ) ہے ، اسی طرح چین بھارت کا بڑا تجارتی شریک کار بھی ہے اور بھارت کی بیرونی تجارت میں اس کا حصہ تقریباً 10 فیصد ہے، عالمی معیشت کے مستقبل کے بارے میں پیشگوئی خاصی پریشان کن ہے ، یہ بات لازمی ہے کہ اس کے اثرات بھارتی معیشت پر بھی ضرور ہوں گے ، اس لیے کہ برسر روزگار بھارتی شہریوں کی 75 فیصد تعداد ان چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں میں ملازم ہے جو گلوبل سپلائی چین کا حصہ ہیں۔

ان حالات میں جبکہ عالمی سطح پر مختلف ممالک کی معیشت ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ COVID-19 کے باعث بھارت میں مزید کمی ہوسکتی ہے، اگر دیگر عوامل بدستور رہے تو بھارت کی جی ڈی پی افزائش میں نصف سے ایک فیصد پوائنٹ تک کمی ہوسکتی ہے، ان حالات میں جبکہ بھارت کی اقتصادی صورتحال قابل رشک نہیں ہے خطرہ ہے کہ COVID-19 کے نتیجے میں اس کی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ وزیر اعظم مودی کا فرض ہے کہ وہ محض زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر یعنی اپنے اقدامات کے ذریعے قوم کو یقین دلائیں کہ انہیں بھارت کو درپیش خطرات کا پورا احساس ہے، انہیں چاہیے کہ وہ قوم کو COVID-19 کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیلئے اپنی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے بتائیں کہ اس ہولناک مسئلے سے نمٹنے میں کامیابی ناممکن نہیں، یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات کوئی سنگین بحران بہتر مواقع کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 1991 کے دوران بھارت سمیت پوری دنیا اسی طرح کے سنگین اقتصادی بحران کا شکار ہوگئی تھی، خلیج کی جنگ کے باعث پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہوچکی تھی، ان حالات میں بھارت بھی بری طرح ادائیگیوں کے عدم توازن کا ہدف بن گیا تھا، ان تمام منفی عوامل کے باوجود اس وقت بھارت نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کر کے اپنی معیشت کو ایک نئی زندگی دی اور اسے ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن کر دیا، بالکل اسی طرح موجودہ صورتحال میں جبکہ وائرس کی وجہ سے چینی معیشت مسائل کا شکار ہے اگر بھارت بڑے پیمانے پر اصلاحات نافذ کرے تو اسے بہت سے مواقع میسر آسکتے ہیں، وہ عالمی معیشت میں کہیں زیادہ بڑ ا کردار ادا کر کے اپنی معیشت کو مستحکم اور اپنے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرسکتا ہے ، لیکن اس عظیم نصب العین کیلئے اولین شرط یہ ہے کہ ہم سب تفرقہ بازی ، شرانگیز نظریات اور گھٹیا سیاست کو خیرباد کہہ دیں اور اداروں کو اولیت دیں۔

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میری ہرگز یہ خواہش نہیں ہے کہ میں خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کروں یا مستقبل کے بارے میں کوئی مایوس کن پیشگوئی کروں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنی قوم سے سچ بولیں، اور سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت کو درپیش موجودہ صورتحال نہایت مخدوش اور پریشان کن ہے ، وہ بھارت جس کی خوبیوں کے ہم سب ہمیشہ سے مداح رہے بہت تیزی کے ساتھ منظر سے غائب ہورہا ہے ، دانستہ پیدا کی گئی مذہبی منافرت، بڑے پیمانے پر اقتصادی بدانتظامی اور بیرو ن ملک رونما ہوانے والے کورونا وائرس کے ممکنہ اثرات وہ منفی عوامل ہیں جو ہمارے ملک کی ترقی اور عالمی سطح پر اس کے مقام اور مرتبے کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، اب وہ وقت آچکا ہے جب ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے یہ تلخ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمیں شدید ترین خطرات کا سامنا ہے اور ہماری بقا کی واحد صورت یہی ہے کہ ہم پوری سنجیدگی اور متانت ، فہم و بصیرت اور ہمت و استقامت کے ساتھ قوم کو اس گھمبیر صورتحال سے نکالیں۔

(بھارتی اخبار دی ہندو میں شائع آرٹیکل سے ترجمہ)