لندن: (دنیا نیوز) بھارتی دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں کے قتل اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کی گونج برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں سکھ رکن تن من جیت سنگھ نے دہلی فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کے خلاف آواز بلند کردی۔
سکھ ایم پی تن من جیت سنگھ دھیشی نے پارلیمان میں مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دلی میں مسلمانوں کے خلاف تشدد نے 1984ء میں ہوئی سکھوں کے تکلیف دہ قتل عام کی یاد تازہ کردی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سکھوں کا قتل عام کیا جارہا تھا تو میں بھارت میں زیر تعلیم تھا، شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرتے مسلمانوں پر مظالم نا قابل برداشت ہے۔ تشدد کے متاثرین کا کہنا ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی فسادات سے 35 ارب ڈالرزکا نقصان، اقوام متحدہ کا بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع
برطانوی وزیر مملکت برائے خارجہ نائیجل ایڈمز کا کہنا تھا کہ دہلی میں ہونے والے واقعات تشویشناک تھے، برطانیہ بھارت میں حالیہ تشدد کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق ہوگی اسکی مذمت کرتے ہیں، برطانیہ کو بھارت میں پاس ہونے والے شہریت بل پر تحفظات ہیں، ہم نے حکومت کو شہریت قانون سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔
لیبر ایم پی یاسمین قریشی کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے گزشتہ 5 سال میں مسلمانوں کے منظم تفریق اور امتیازی سلوک کا آغاز کیا، مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل370کا خاتمہ اور شہریت قانون منظم امتیازی سلوک کا حصہ ہے۔ بھارت پر ہندوتوا کے نسل پرستی پر مبنی آر ایس ایس کے نظریہ کا قبضہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس کا نازی پارٹی کے ساتھ گہرا تاریخی تعلق رہا اور بھارت کے موجودہ وزیر اعظم کا تعلق بھی آر ایس ایس سے رہا۔
برطانوی ایم پی خالد محمود کا کہنا تھاک ہ نئی دہلی میں مسلمانوں پر حملے ہوئے، 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، مسلمانوں کو گھروں گھسیٹا گیا، سڑکوں پر مارا گیا، جلادیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے، سی اے اے کا قانون مسلمانوں کے خلاف ہے۔