نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے جبکہ ہندو انتہا پسندوں نے کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے لیے شاہین باغ میں جاری دھرنے کو ختم کرنے کے لیے اپنے حمایتوں کو اتوار کو بلا لیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک ہفتے سے زائد جاری بھارتی دارالحکومت میں ہلاکتوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے، ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں جنہیں براہ راست گولی مار کر ہلاک کیا ہے جبکہ کچھ کو بدترین تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے باعث نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے، کاروبار بند ہے جبکہ تعلیمی ادارے میں چھٹیاں دے دی گئی ہیں، سکولوں کو 7 مارچ تک بند رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔
دریں اثناء قانونی مشیر سکھ فارس جسٹس کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی افسوسناک ہے، مودی سرکار 20 کروڑ مسلمان بھائیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
گرپتونت سنگھ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا کا واحد حل آزادی ہے ، ہندوستان کے مسلم آبادی والے علاقوں پر مشتمل آزاد ریاست بنائی جائے ، بھارت اور دنیا بھر میں رہنے والے سکھ مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔
رہنما سکھ فار جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مسلمانوں کو اترپردیش اور آسام سمیت ایک نئی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے سکھ برادری نے 1984ء کے قتل عام سے سبق سیکھ لیا ہے۔
دریں اثناء بی جے پی کے انتہا پسندوں دہشتگردوں کی طرف سے اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندو سینا کے گروپ صدر وشنو گپتا کا کہنا ہے کہ اتوار کو دارالحکومت دہلی میں شاہین باغ پر جاری دھرنے کو بزور طاقت ختم کرائیں گے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وشنو گپتا نے اپنے کارکنوں کو اتوار کو شاہین باغ کے قریب جمع ہونے کا کہا ہے اور کہا ہے کہ ہم ہر حال میں شاہین باغ کا علاقہ اپنے زور بازو سے خالی کروائیں گے۔
اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں رہنے والے تمام شہریوں کو کہتا ہوں کہ اتوار کی صبح دس بجے شاہین باغ کے مقام پر آئیں تاکہ دو ماہ سے جاری یہ احتجاج ختم کرایا جا سکے۔
بھارت میں شہریت کا متنازع قانون منظور ہونے کے بعد سے 79 دنوں کے دوران پرتشدد واقعات میں 70 افراد ہلاک ہوگئے۔
بھارتی خبر رساں ادارے دی ہندو کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ نے 11 دسمبر 2019 کو سٹیزن ترمیمی ایکٹ کو منظور کیا جس کے بعد سے 79 روز کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں 70 افراد جان سے گئے۔
دی ہندو کے مطابق سٹیزن ایکٹ امینڈمنٹ (سی اے اے) کی منظوری کے بعد آسام میں 6، اتر پردیش میں 19، کرناٹکا میں 2 اور حالیہ دنوں میں نئی دہلی فسادات میں 43 افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ اترپردیش، کیرالا، تامل ناڈو، مہاراشٹرا، بہار، مغربی بنگال، مدھیا پردیش، راجستھان، گجرات اور تلنگانا سمیت ملک بھر میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
دریں اثناء عالمی میڈیا بھی نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو سامنے لے آیا تھا، جس کے بعد بین الاقوامی میڈیا پر بھی بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات پر آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں ہونے والے فسادات گجرات قتل عام کے بعد بد ترین فسادات ہیں، فسادات کی وجہ مودی سرکار کا شہریت سے متعلق قانون ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا تھا کہ دلی فسادات کے پیچھے صرف ایک شخص کپل مشرا کا ہاتھ ہے، بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے گلی کوچے کسی جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ایک اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا تھا کہ 42 افراد کی ہلاکت کے بعد دہلی پولیس کی اہلیت پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، پولیس فسادیوں کو روکنا نہیں چاہتی یا روک نہیں سکتی۔
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔ اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔