اسلام مکمل ضابطہ حیات

Published On 22 August,2025 11:39 am

لاہور: (مولانا رضوان اللہ پشاوری) اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ گھیرنے والا مکمل ضابطہ حیات ہے، انسان جہاں کہیں ہو، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یا کھاتے پیتے، حتیٰ کہ لین دین کرتے وقت بھی اس پر لازم ہے کہ وہ سوچے: اللہ تعالیٰ کا اس بارے میں کیا حکم ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس پر کس طرح عمل فرمایا؟

قرآن مجید میں انسان کی رہنمائی کیلئے بے شمار احکام اور اصول موجود ہیں، جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ حقیقی اسلامی زندگی کس طرح بسر کی جائے، انہی احکامات میں سے چند اہم پہلو آج ہم اپنے قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

عہد کو پورا کرنا
قرآن میں ہے: ’’اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تمہاری) باز پرس ہونے والی ہے ‘‘(سورہ بنی اسرائیل)۔ ہم وعدہ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں کہ اس کا پورا نہ کرنا کوئی گناہ یا بری بات ہے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق کتنی سخت تاکید کر رہے ہیں کہ وعدہ پورا کیا کرو، اس کی پوچھ ہوگی، امید ہے کہ آپ سب اس کا خیال رکھیں گے، اور آئندہ جب بھی کسی سے وعدہ کریں سوچ کر کریں اور جب وعدہ کر لیں تو اب اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔

ناپ تول پورا کرنا
ناپ تول پوری کر کے دینی چاہیے، کم ناپ تول کردینا بہت سخت گناہ ہے، آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے قصے میں پڑھ چکے ہیں کہ ان کی اُمت اس لئے تباہ کر دی گئی کہ وہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور تولنے کیلئے صحیح ترازو استعمال کرو، یہی طریقہ درست ہے، اور اسی کا انجام بہتر ہے (سورہ بنی اسرائیل :35)۔

دوسری جگہ کم تولنے والوں کیلئے دوزخ کی شہادت دی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں، اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں، کیا یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ انہیں ایک بڑے زبردست دن میں زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا؟ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (سورۃ المطففین:1تا6)۔

خوش خلقی
دوسروں سے ہنس کر یا مسکرا کر خوش اخلاقی سے بات کرنا بھی کیسا اچھا ہے، سب کو اچھا معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے سب کام آسانی سے بنا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کیلئے قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’اور ہر شخص سے بات اچھی طرح کیا کرو‘‘(سورۃ البقرہ)، خوش خلقی سے متعلق نبی کریمﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے: تم کسی بھی نیک کام کو حقیر(کم تر) نہ جانو اگرچہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح:1892)

جھگڑے سے بچنا
جب کوئی شریر شخص تم سے خواہ مخواہ لڑنے لگے اور الجھنے لگے تو اس سے تم بھی لڑنا شروع نہ کرو، ورنہ تم میں اور اس میں کیا فرق رہا؟ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن مجید میں فرماتے ہیں: اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دِفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو، نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو(سورۃ الفصلت :34)۔

غیبت نہ کرنا
پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا، اس کو غیبت کہتے ہیں، یہ بری بات ہے، اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور دشمنی قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، قرآن مجید میں غیبت کرنے والوں سے متعلق کہا گیا ہے کہ غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا جائے، سنو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔

سلام کرنا
سلام کرنے کے متعلق بڑی تاکید آئی ہے، جب ہم اپنے گھروں میں جایا کریں ی اکسی سے ملاقات کیا کریں تو السلام علیکم کہنا چاہیے، یعنی تم پر اللہ کی سلامتی ہو، جس پر اللہ کی سلامتی ہو جائے اس کو پھر اور کیا چاہیے، اس کے علاوہ اور کسی طرح سلام ہرگز نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: چنانچہ جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، کہ یہ ملاقات کی وہ بابرکت پاکیزہ دعا ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے، اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ، ہمارے پیارے نبیﷺ نے بہت ساری احادیث میں السلام علیکم کہنے کی بہت تاکید کی ہے۔

مولانا رضوان اللہ پشاوری ناظم تعلیمات جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اصاخیل ہیں۔