اسلام آباد: (دنیا نیوز) 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر انسانی اقدام پر جہاں عالمی طاقتیں تجارتی تعلقات خراب ہونے کے ڈر سے کھل کر بھارت کے خلاف بیان دینے سے گریز کیا، وہیں انسانیت دوست آوازیں کشمیریوں کے لیے بلند ہوتی رہیں۔
تفصیلات کے مطابق 5 گست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر انتہا پسند نریندر مودی کی سرکار نے شب خون مارا تو عالمی سیاست پر جیسے بھونچال آگیا بھارتی فوجی محاصرےپر عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کو شدید تشویش لاحق ہوگئی۔
امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر عالمی طاقتیں تجارتی مجبوریوں میں جکڑے دبے لفظوں میں بھارت کو تنبیہ کی لیکن چین، ترکی، ملائیشیا اور دیگر عالمی اداروں اور شخصیات نے کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور مودی سرکار کے اقدام کو انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور دو طرفہ عالمی معاہدوں کے منافی قرار دیا۔
چین نے دو ٹوک انداز میں مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کیا۔
چھ اگست کو ترکی اور ملائیشیا کے وزرائے اعظم نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کر کے بھارتی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی، اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے اور کشمیریوں کے موقف کی بھرپور نمائندگی کا یقین بھی دلایا۔
سابق برطانوی اپوزیشن لیڈرجیریمی کوربن نے کشمیر کی صورتحال کو پریشان کن قراردیا، کینیڈین وزارت خارجہ نے بھی مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے پر تشویش کا اظہار کیا، جاری بیان میں کہاگیا کہ کشمیر کے مسئلے کووہاں کے لوگوں کی منشا کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
امریکی کانگریس میں الہان عمر کشمیریوں کی آواز بنیں اور جنوبی ایشیاء کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ایلس ویلز کو مبہم موقف اپنانے پرآڑے ہاتھوں لیا، الہان عمر نے سوال اٹھایا کہ جو کچھ کشمیر میں ہورہاہے اس کے بعد نریندر مودی کو کوئی ملک جمہوری لیڈر کیسے کہہ سکتا ہے، ایلس ویلز الہان عمر کے سوالوں پر آئیں بائیں شائیں کرتی رہیں۔
امریکی کانگریس کی ایک اور مسلمان رکن رشیدہ طیب نے بھی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
عالمی اداروں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے پر بھرپور صدائے احتجاج بلندکی، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ وادی میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی اور ناقابل برداشت محاصرہ کے ذریعے کشمیریوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بھارتی اقدام سے بنیادی انسانی حقوق خطرے میں پڑ گئے ہیں، صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بھی کشمیری عوام کی آواز دبانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
خود بھارت میں بھی انسانیت دوست آوازوں نے مودی سرکار کے اقدام کو مسترد کردیا، بھارتی مصنفہ اور صحافی ارون دھتی رائے نے نیو یارک ٹائمز میں لکھے آرٹیکل میں مودی کو بد معاش قراردیتےہوئے کہا کہ بھارت خود کو تاج برطانیہ سمجھتا ہے، جدید دور میں یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔