باکو: (سپیشل فیچر) آرمینیا اور آذربائیجان میں ایک بار پھر محاذ گرم ہو چکا ہے۔27 ستمبر کو لندن ٹائم کے مطابق صبح 10 بج کر 10 منٹ پر دونوں ممالک کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔
گولہ باری سے گزشتہ 26 سال سے جاری تصادم میں شدت آ گئی ہے۔ اب تک دونوں فریقین کے درجنوں فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان میں ہونیوالا یہ تصادم 1989ء سے جاری ہے۔
اقوام متحدہ نے متنازعہ علاقے ناگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ مان لیا لیکن آرمینیا کا ماننا ہے کہ اس کے کچھ سرحدی دیہات پر آذری فوج قابض ہے۔ دونوں ممالک میں وقتاً فوقتاً محاذ گرم ہوتا رہا ہے۔
مذکورہ متنازعہ علاقے ناگورنو کاراباخ میں یہ فیصلہ نہیں ہو رہا کہ یہ علاقہ دراصل کس ملک کا حصہ ہے۔ ہزاروں افراد ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ باہمت لوگ اب بھی مقیم ہیں اور کشمیریوں کی طرح زندہ دلی کے ساتھ گولیوں کے سائے میں بھی زندہ ہیں۔
آرمینیا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس غیر ملکی مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔ آرمینیا نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ایک ملک شام میں موجود انتہا پسندوں کو اس کے سرحدی دیہات میں دھکیل کر حالات خراب کر رہا ہے۔
انہوں نے ناگورنو کاراباخ میں اسلحہ کی سپلائی کے ناقابل تردید شواہد کا بھی ذکر کیا۔ بعد ازاں آرمینیا کی وزارت دفاع نے غیر ملکی مداخلت کے چند ثبوت بھی پیش کئے۔ وزارت کے ترجمان آرتسران اوانیسیا کے مطابق باغیرہ میں حالیہ مداخلت کی روک تھام کے لئے ان کا ملک عالمی فورموں سے رجوع کر رہا ہے۔
ادھر آذربائیجان کے نائب صدر حکمت حاجیویوف نے آرمینیا کی تمام باتوں کو لغو اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ تاریخ میں یہ تصادم ناگونو کاراباخ تصادم کے عنوان سے بھی درج ہے لیکن بڑی طاقتیں اس کا حل پیش کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
انہوں نے دونوں ممالک پر چھوڑا ہوا ہے کہ وہ جیسے چاہیں ،حل کریں۔ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جائے ، اسی طرح ناگورنو کاراباخ ‘‘ کے معاملے کو بھی بات چیت سے ہی حل کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔بڑی طاقتیں زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تصادم کسی حد تک نسلی ہے اور کچھ حد تک سرحدی۔ اگرچہ اس علاقے پر ایک آزاد گروپ قابض ہے لیکن یہاں آرمینیا کے حامی گروپ بھی موجود ہیں۔ عالمی ممالک اسے آذر بائیجان کا حصہ مانتے ہیں ۔ لیکن یہاں عالمی سرحد کی واضح نشاندہی پر عمل نہیں کیاجا رہا۔ آرمینیاکی حکومت اسے عالمی سرحد تسلیم نہیں کرتی۔
ناگورنوکاراباخ میں گوریلہ جنگ 1988سے 1992تک جاری رہی ۔ گوریلہ جنگ میں شدت آنے کے بعد 1992ء میں دونوں ممالک میں جنگ چھڑ گئی، جو 1994ء تک جاری رہی۔ عالمی مداخلت کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا لیکن مقبوضہ کشمیر کی طرح اب بھی یہ محاذ اکثر شعلے اگلتا رہتا ہے۔ دونوں ممالک کا بھاری ا سلحہ گولے برساتا رہتا ہے۔ اسے ہم دنیا کے طویل ترین تصادم میں شامل کر سکتے ہیں۔
آرمینیا کا ایک سرحدی گائوں موسیف ‘‘ کہلاتا ہے۔ آذر بائیجان کی سرحد سے صرف 300میٹر دور ہونے کے باعث سب سے پہلے یہی گائوں جنگ کا نشانہ بنتا ہے۔ آذری فوج اس گائوں کے 90فیصد باشندوں کی جاسوسی کرتی ہے ۔ یہاں اکثر مکانات ان کے سنائپرز کے نشانے پر ہیں۔اس گائوں کے سبھی باشندے خود کار ہتھیاروں کی گھن گرج سے واقف ہیں کیونکہ یہاں کوئی ا یک گھربھی سلامت نہیں، ہر گھر اسلحے کے اندھا دھند استعمال اور بربریت کی منہ بولتی تصویر ہے۔
انزیلہ کی نواسی کنڈر گاڑڈن میں زیر تعلیم ہے ،27ستمبر کو وہ سکول سے گھر جا رہی تھی کہ گولہ باری شروع ہو گئی۔ گولہ باری شروع ہوتے ہی اس نے سر نیچے کرتے ہوئے گھر کی جانب دوڑ لگا دی،جان بچانے کے اس طریقے سے پورا علاقہ واقف ہو چکا ہے۔
ناگورنو کاراباخ کے علاقے پر آرتساخ (Artsakh) حکومت قائم ہے۔ یہ علاقہ آرمینیا کی سرحد کے قرب میں واقع ہے، اسے آذربائیجان کا حصہ تصور کیا جاتا ہے ، وہاں کنٹرول بھی آذربائیجان کا ہے۔تاریخی طور پردیکھا جائے تو فروری 1988ء میں دونوں ممالک نے ناگورنو کاراباخ کو اپنے ملک کا حصہ قرار دیا۔ زوال سویٹ یونین کے بعد 1989 ء میں ہی انہوں نے جنگ کے ذریعے حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ ناگونو کاراباخ میں گوریلہ جنگ کا آغاز ہو گیا اسی حوالے سے تنازعے کو ناگونو کاراباخ وار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے حامیوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ بعد ازاں آرمینیا اور آذر بائیجان بھی جنگ میں شریک ہوگئے، اور کاراباخ کا سرسبز و شاداب پہاڑی علاقہ گولہ بارود کی بارش سے گردآلود ہو گیا، یہاں کی اسمبلی نے آرمینیا کی حمایت میں ووٹ دے دیا۔ایک ریفرنڈم بھی ہوا، جس میں اکثریت نے دونوں ممالک سے الگ ہونے کی حمایت کی۔ وہ آزاد ناگورنو کاراباخ ‘‘ کے حامی نکلے۔ 20فروری کو آرمینیا کی اسمبلی نے اس خطے کو اپنے ملک میں ضم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ ابھی دونوں ممالک کے مابین تنازعہ جاری تھا کہ کچھ گروپوں نے ری پبلک آف ناگورنو کاراباخ‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیاجس کا لازمی نتیجہ جنگ میں شدت کی صورت میں نکلنا تھا ،سو نکلا۔ 1992میں دونوں ممالک کھل کر آمنے سامنے آگئے، اور اس بلند و بالا پہاڑی علاقے کا حسن بارود کے دھویں سے گہنا گیا۔
14مارچ 2008ء کو ایک قرارد اد کے ذریعے اقوام متحدہ نے اسے آذر بائیجان کا حصہ مانتے ہوئے آرمینیا کو اپنی تمام فوجیں نکالنے کا حکم دیا۔لیکن ا س پر پورے طور پر عمل نہ ہو سکا، جس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے فوجیں نہیں نکالیں اسی طرح آرمینیا بھی ڈٹا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارد اد کے حق میں39اور مخالفت 7میں ووٹ پڑے تھے لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ بڑے ممالک (برطانیہ ، امریکہ ، روس،فرانس آسٹریلیا اور چین) کافی حد تک غیر جانب دار رہے۔ زیادہ تر اسلامی ممالک ووٹنگ میں پیش پیش تھے۔ کسی ایک یورپی ملک نے بھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔نیٹو ممالک میں سے صرف ایک رکن (ترکی) نے ووٹ ڈالا تھااسی لئے یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔بڑے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ یہاں بھی مسلمان آپس میں لڑتے رہیں
کئی ممالک یہ مانتے ہیں کہ اس حصے میں عالمی مداخلت بھی ہو رہی ہے، جو کہ نہیں ہونا چاہئے ۔بعض ممالک اپنے جنگجو بھیج رہے ہیں یا اسلحہ کے زور پر صورتحال خراب کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق روس، یوکرائن اور بیلا روس کے جنگجو بھی یہاں اپنی طاقت آزما رہے ہیں۔1992 میں ایک یورپی تنظیم آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ‘‘ (OSCE) نے تمام ممالک پر زور دیاتھا کہ علاقائی امن کی خاطر وہ اس خطے میں ہر قسم کے اسلحہ کی فراہمی بند کرد یں لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔یہاں اسلحہ کا سب سے بڑا سپلائر روس ہے ،چین دوسرے نمبر پر ہے لیکن انڈیا، چیک ری پبلک، ترکی، یوکرائن اور قبرص بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اسلحہ کی فراہمی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
دونوں ممالک کے مابین جنگ میں شدت 2008ء میں پیداہوئی ، اس لڑائی میں 30فوجی لقمہ اجل بنے۔بعد ازاں ایک دو سال کو چھوڑ کر ہر برس جنگ میں متعدد فوجی اور سویلینز مارے جاتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے 1988سے1994تک 28ہزار سے 38 ہزار تک فوجی مارے جا چکے ہیں۔ بعد کے برسوں میں مرنے والوں کی تعداد 3.5ہزار تک ہے۔جبکہ اس تصادم کے نتیجے میں 2.30لاکھ آرمینیائی شہریوں اور 8لاکھ آذری باشندوں کو اپناگھر بار چھوڑنا پڑا۔ کاراباخ‘‘ میں زندگی کبھی معمول پر نہیں آئی۔
ایک طرف آتکس ڈیفنس آرمی ‘‘اور آرمینیائی فوجیں ہیں تو دوسری طرف آذر بائیجان کی باقاعدہ فوج لڑ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آرمینیا نے 65ہزار اور آذر بائیجان نے 67ہزار فوجی جنگ میں جھونک رکھے ہیں۔