برما: (دنیا نیوز) میانمار میں گرفتار سیاسی رہنما آن سان سوچی کے ٹھکانے کا پتہ نا چل سکا، فوج نے سینکڑوں اراکین اسمبلی کو سرکاری میں عمارت میں قید کیا ہوا ہے، ملٹری قیادت نے حکومتی ادارے چلانے کے لئے نئے افراد تعینات کردئے ہیں، البتہ چیف جسٹس سمیت باقی جج عہدے پر برقرار ہیں، عالمی برادری سیاسی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے۔
میانمار میں فوج کی بغاوت، گرفتار رہنما آن سان سوچی کے ٹھکانے کے بارے میں پتہ نہ چل سکا، ملٹری نے سینکڑوں اراکین اسمبلی کو سرکاری کمپلیکس میں زیرحراست رکھا ہوا ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
فوجی حکومت نے سابق وزرا معزول کرکے اپنی مرضی کی تعیناتیاں کیں، البتہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز اور چیف جسٹس کو عہدے پر برقرار ہیں، اینٹی کرپشن کمیشن اور انسانی حقوق کمیشن کے سربراہان بھی عہدے پر کام کرتے رہیں گے ۔ فوج کے آنے سے ملک کی کاروباری شخصیات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
تھائی لینڈ میں مقیم برمی شہریوں نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا، جاپان کی وزارت دفاع نے کہا کہ برما میں فوجی بغاوت سے خطے میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔
امریکا نے میانمار کر معاشی پابندیوں کی دھمکی دے دی، اقوام متحدہ سمیت یورپی ممالک کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ جاری ہے۔