کوپ 28 کے اعلامیہ پر بھی اختلافات کے خدشات اُمڈ آئے

Published On 10 December,2023 05:20 pm

اسلام آباد ( حامد ظہیر میر) دبئی میں ماحولیات کے حوالے سے جاری عالمی کانفرنس اختتامی مراحل میں اختلافات سے دو چار ہونے لگی۔

تفصیلات کے مطابق اوپیک ممالک فوسل فیول کےمعاملے کو کانفرنس کے اعلامیے سے فیز اوٹ کرنے کیلئے ایک ہو گئے جبکہ دوسری طرف دنیا کے بیشتر ممالک فوسل فیول کو فیز آوٹ کر کے توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے حامی ہیں۔

اوپیک کے سربراہ نے ممبران پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی ایسے معاہدے کو مسترد کر دیں جو فوسل فیول کو نشانہ بناتا ہے جس نے دبئی میں جاری اس کانفرنس کو گہری تقسیم سے دوچار کر دیا ہے، اس صورتحال میں کانفرنس میں شریک 200 کے قریب ممالک فوسل فیول کے معاملے پر کسی متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کے لیے غور کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دبئی کوپ 28: کشمیر آرفنزریلیف ٹرسٹ (کورٹ) کی شاندارعالمی پذیرائی

کانفرنس کے میزبان متحدہ عرب امارات نے مندوبین پر زور دیا کہ وہ ایک معاہدے کے حصول کے لیے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیںاور تمام ملک اپنے کمفرٹ زون سے باہر آ کر عالمی برداری کو درپیش اس بڑے مسئلے کے حل پرتمام تر توجہ مرکوز کریں،تاہم یہ پہلی بار ہوگا کہ کسی کاپ کانفرنس میں فوسل فیول کے معاملے کو جو کہ ہمارے خطہ عرض پر درجہ حرارت میں اضافے کا بڑا سبب ہے پر اس طرح توجہ نہیں دی جائے گی اور ان عزائم کا اظہار ایڈوکیسی گروپ آئل چینج انٹرنیشنل کے عالمی پالیسی مینیجر رومین آئیوالالن کے اس بیان سے بھی ہوتا ہےجس میں ان کا کہنا ہے کہ ہم فوسل فیول فیز آؤٹ پر کبھی کسی معاہدے کے قریب نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کوپ 28 کانفرنس: عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فنڈز کا اعلان

لگ یوں رہا ہے کہ کاپ 28 کانفرنس فوسل فیول سے نجات حاصل کر کے توانائی کے دیگر ذرائع کی طرف سفر کو تیز رفتار کرنے میں اتنی معاون ثابت نہیں ہو پائے گی، جس کی دنیا کو ضرورت ہے کیونکہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر شدید تباہ کاریوں سے دوچار ہے، تاہم ماہرین اس امید کا اظہار کر ہے ہیں کہ کاپ 28 میں فوسل فیول کے خاتمے کی طرف پیش رفت ضرور ہوگی ، کچھ طویل ہی سہی لیکن اس حوالے سے کوئی ٹائم لائن ضرور دی جائے گی۔

عالمی ماہرین کی جانب سے یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ کانفرنس کے اختتام میں ماحولیاتی تباکاریوں سے نجات کے لیے فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث متاثرہ ممالک کی مدد کی جا سکے۔