وائٹ ہاؤس غزہ جنگ بندی کے بارے میں پرامید، حماس سے نئی تجاویز ماننے کا مطالبہ

Published On 24 August,2024 11:02 am

نیویارک : (ویب ڈیسک ) وائٹ ہاؤس نے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات جنگ بندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق غزہ جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں کی امریکی وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ سی آئی اے چیف ولیم برنز اور سینیئر امریکی ذمہ دار بریٹ مکگرک قا ہرہ میں جمعرات کی شام سے شروع ہونے والے مذاکرات میں شریک ہیں۔

ان مذاکرات کے بارے میں قومی سلامتی کونسل کے لیے امریکی ترجمان جان کربی نے کہا کہ مذاکرات میں جنگ بندی کے لیے پیش رفت ہو رہی ہے، اب ہماری ضرورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے فریق عملدرآمد کے لیے آگے بڑھیں۔

جان کربی نے کہا کہ جمعرات کی رات کو ابتدائی طور پر قاہرہ میں جاری مذاکرات تعمیری نوعیت کے تھے، اس لیے ہم ان مذاکرات میں ایک طرح سے تحریک دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے بقول یہ مذاکرات دو دن مزید جاری رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سفارتی کوششوں کے ٹوٹ بکھر جانے کی اطلاعات درست نہیں ، ہمارے وزیر خارجہ نے اسی ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خلا کو پر کرنے والی امریکی تجاویز کے حوالے سے   آن بورڈ   ہیں تاکہ دس ماہ سے زیادہ عرصے پر پھیل چکی جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔

ترجمان جان کربی نے کہا کہ ہمارا یہ یقین مسلسل جاری ہے کہ نیتن یاہو نے امریکی تجویز کو قبول کیا ہے، اگرچہ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے لیڈروں کا اصرار ہے کہ اسرائیلی فوج کو غزہ اور مصر کی سرحد سے واپس نہیں بلانا چاہیے لیکن امریکہ و مصر دونوں اس سے متفق نہیں ہیں۔

جان کربی نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ نئی تجویز کو قبول کرے، یہ تجویز پچھلے ہفتے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پیش کی گئی تھی، اس سے غزہ کے لوگوں کو امن ملے گا جنگ بندی ہو گی ۔

حماس کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ نئی نئی تجاویز کے بجائے جن امور پر پہلے سے باہم اتفاق ہو چکا ہے ان پر عمل کیا جائے۔

اس سلسلے میں حماس دو جولائی کو ہونے والی مذاکراتی بیٹھک کے دوران صدر جوبائیڈن کے 31 مئی کے فارمولے پر ہونے والے اتفاق رائے کا حوالہ دیتا ہے، حماس کے مطابق پہلے سے ہو چکے اتفاق کو نظر انداز کر کے نئی نئی تجاویز پیش کرنا غیر سنجیدگی اور مذاکرات کے مقصد کو برباد کرنے والی بات ہے۔
 







×

آپ کی رائے

کیا چھوٹے صوبوں کا قیام پاکستان میں بہتر حکمرانی اور ترقی کے لیے ضروری ہے