ڈھاکہ: (دنیا نیوز) بنگلہ دیش میں 16 سال قبل ہونے والی پُرتشدد بغاوت کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ درجنوں سینئر فوجی افسروں کے قتل سمیت قتل عام کا حکم سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے دیا تھا۔
2009 میں ڈھاکا سے شروع ہونے والی اور ملک بھر میں پھیل جانے والی 2 روزہ بغاوت کے دوران بارڈر گارڈز بنگلہ دیش کے مشتعل اہلکاروں نے 74 افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں کئی اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ حسینہ کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے چند ہی ہفتوں بعد پیش آیا، جس سے ان کی حکومت شدید عدم استحکام کا شکار ہوئی۔
گزشتہ برس طلبا کی قیادت میں ہونے والی تحریک کے نتیجے میں حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا، جس کے بعد محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے نیا کمیشن تشکیل دیا، 78 سالہ شیخ حسینہ اس وقت بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش واپسی کے عدالتی احکامات کو نظرانداز کر رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کے دفتر اطلاعات کے مطابق کمیشن کے سربراہ اے ایل ایم فضل الرحمان نے بتایا کہ شیخ حسینہ کی قیادت میں اس وقت کی عوامی لیگ حکومت براہِ راست اس بغاوت میں ملوث تھی، سابق رکنِ پارلیمنٹ فضل نور تپوش مرکزی رابطہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے اور حسینہ کے اشارے پر قتل عام کا منصوبہ آگے بڑھایا گیا۔
دفتر اطلاعات سے رپورٹ کے متعلق جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات میں ایک غیر ملکی طاقت کے ملوث ہونے کے شواہد بھی واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔
بعد ازاں پریس کانفرنس میں فضل الرحمان نے کہا کہ کہ بھارت نے اس قتل عام کے بعد ملک کو غیر مستحکم کرنے اور بنگلہ دیشی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی، بنگلہ دیش کی افواج کو کمزور کرنے کی سازش طویل عرصے سے جاری تھی۔
بھارت نے تاحال ان الزامات پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
یاد رہے کہ شیخ حسینہ کی بھارت سے قربت، اقتدار سے برطرفی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی ہے۔
عبوری وزیرِ اعظم یونس نے کمیشن کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ قوم کئی برسوں سے 2009 کے قتل عام کی حقیقی وجوہات سے بے خبر رہی، کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے اب آخرکار حقیقت سامنے آگئی ہے۔
اس واقعہ کی پہلے کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ برسوں سے جمع شدہ غصہ، کم تنخواہوں اور نامناسب رویے پر اہلکاروں کی شکایات کو نظرانداز کیے جانے سے یہ بغاوت پھوٹی، تاہم یہ تحقیقات شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھیں، اور ان کے مخالفین ابتدا سے ہی الزام عائد کرتے رہے تھے کہ انہوں نے اپنی سیاسی طاقت مضبوط کرنے اور فوج کو کمزور کرنے کے لیے اس بغاوت کی سازش کی۔



