سال 2024 پاکستان کی معیشت کے لئے کیسا رہا؟

Published On 27 December,2024 12:29 pm

لاہور: (عثمان فیاض) سال 2024ء کو کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا، جہاں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال نے عوام کو مایوس کیا، وہیں یہ مایوسی اس قدر گہری ہے کہ عوام معیشت میں ہونے والی مثبت پیشرفت کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔

رواں سال کے آغاز سے ہی ملک کئی طرح کے بحرانوں کی لپیٹ میں تھا، یہاں تک خدشات ظاہر کئے گئے کہ ملک کسی بھی لمحے دیوالیہ ہو جائے گا، تاہم حکومتی کی جانب سے لئے جانے والے سخت فیصلوں کے بعد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے بہتری آنے لگی اور اس کا اعتراف غیر ملکی معاشی تحقیقاتی ادارے بھی کر رہے ہیں۔

مہنگائی یا قیمتوں میں اضافے کی شرح

مہنگائی (افراطِ زر) کنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مئی 2023ء میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 38 فیصد تھی جو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی، سال 2023ء میں گزشتہ سال کے مقابلے افراط زر میں 10.89 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2023ء میں اوسط مہنگائی 30.77 فیصد رہی۔

سال 2024ء کے آغاز پر افراطِ زر میں کمی دیکھی جانے لگی، پاکستان شماریات بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق جنوری میں افراط زر 28.3 فیصد کی سطح پر آگیا، حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی اور نومبر 2024ء میں افراطِ زر کی شرح 4 فیصد کی سطح پر آگئی۔

قیمتوں میں اضافے کی شرح جو کہ مئی 2023ء میں 38 فیصد تھی، اب یہ شرح کم ہو کر 4 فیصد رہ گئی ہے۔

پاکستان کو کتنا قرضہ ملا؟

اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے دوران حکومت پاکستان کو ملنے والے بیرونی قرضوں اور گرانٹس کی تفصیلات جاری کر دیں۔

اقتصادی امور ڈویژن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی سے نومبر تک پاکستان کو ساڑھے 3 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے تاہم تیزی آنے کا امکان ہے۔

جولائی تا نومبر 3 ارب 57 کروڑ ڈالر کی مجموعی بیرونی فنڈنگ ہوئی جس میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط شامل ہے، گزشتہ سال کے مقابلے بیرونی فنڈز میں 43 فیصد کمی ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق 5 ماہ آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں، ممالک سے 2.57 ارب ڈالر ملے، ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 76 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہم کئے، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، عالمی بینک نے 30 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا رعایتی قرضہ دیا۔

زیر جائزہ عرصے کے دوران چین نے 9 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور فرانس نے 8 کروڑ 90 لاکھ ڈالر فنڈز دیئے، امریکا کی جانب سے 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ کی گئی، چین نے 20 کروڑ ڈالر کا قرضہ بھی رول اوور کیا۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال 24 ارب ڈالر کی مجموعی بیرونی مالی معاونت کا تخمینہ ہے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کا 12 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور ہونے کا امکان ہے، سعودی عرب سے 1.2 ارب ڈالر کی ادھار تیل کی سہولت بھی ملنے کا امکان ہے۔

اداروں کی نجکاری

بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں، ان ادروں میں کئی 100 ارب ڈالر کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے 5 سال کیلئے تیار کردہ نجکاری پلان سامنے آگیا ہے، پلان کے تحت 3 مختلف مراحل میں 24 اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔

مالی سال 2024ء سے 2029ء تک حکومت کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئر لائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹیلیٹی سٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔

یاد رہے کہ نجکاری کمیشن نے قومی ایئر لائن کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کر رکھی تھی تام صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی اور اب ٹیکس چھوٹ کے ساتھ اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔

روپے کی قدر میں استحکام

روپے کی شرح مبادلہ یا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے گزشتہ سال حکومت اور سٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور دو طرفہ مشترکہ کاوشوں سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔

یاد رہے کہ ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں زیر گردش تھیں۔

سال 2024ء کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔

انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جو کہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہو چکا ہے، اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔

پاکستان سٹاک مارکیٹ

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور پر سیاسی اور غیر سیاسی سطح پر مختلف نوعیت کے تبصرے کئے جا رہے ہیں، کوئی اسے سٹے بازی کا اڈا قرار دے رہا ہے اور کوئی اس کو معشیت میں بہتری کا اشارہ قرار دے رہا ہے۔

پی ایس ایکس ویب سائٹ کے مطابق سال 2024ء کے آغاز پر سٹاک ایکسچینج میں ہنڈرڈ انڈیکس 64 ہزار 661 پوائٹنس پر تھا جو کہ دسمبر میں بڑھ کر ایک لاکھ 18 ہزار پوائنٹس کی حد کو چھوگیا، اس طرح تقریباً ایک سال سے کچھ کم عرصے میں انڈیکس میں 50 ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جو کہ کسی بھی سٹاک مارکیٹ میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

اس طرح مارکیٹ میں موجود کمپنیز کی مجموعی مالیت 14 ہزار 855 ارب روپے ہو چکی ہے جو کہ ڈالر میں 52.45 ارب روپے ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیز کی مالیت سال 2013ء میں 100 ارب ڈالر ہوئی تھی جس کے بعد مارکیٹ انڈیکس میں کمی اور روپے کی قدر کم ہونے سے مارکیٹ کی مجموعی مالیت کم ہوگئی تھی اور سب سے زیادہ کمی ڈالر میں ہوئی تھی۔

سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پاکستان معیشت میں میکرو اکنامک بہتری، حکومت کا سیاسی طور پر مضبوط ہونا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مارکیٹ میں دلچسپی شامل ہے۔

بلوم برگ رپورٹ

اس حوالے سے چند ماہ قبل امریکی معاشی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج 2024 میں دنیا کی بہترین مارکیٹ رہی ہے، 100 انڈیکس ایک دہائی کی سب سے زیادہ بیرونی خریداری پر بند ہوا ہے۔

بلوم برگ کے مطابق بیرونی فنڈ نے رواں سال 8.7 کروڑ ڈالر مالیت کے شیئرز خریدے ہیں، بیرونی خریداری اور بہتر معاشی اعشاریوں نے رجحان مثبت کیا ہے، سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس رواں سال 30 فیصد بڑھا ہے، 100 انڈیکس نے آج کاروباری دن کی ریکارڈ سطح بنائی ہے۔

ترسیلات زر میں بہتری

حکومتی اقدامات اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی کوششوں سے رواں برس ملک کی ترسیلات زر میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔

مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے گزشتہ برس کی نسبت زیادہ رقوم پاکستان بھیجیں، اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے گھر بھیجی گئی نقد رقم 34 فیصد اضافے سے 14.8 بلین ڈالر ہوگئی۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے توقع ظاہر کی ہے کہ ترسیلات زر گزشتہ سال کے 30 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس سال 35 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔

اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کے متعارف کردہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی سرمائے میں اضافہ ہو رہا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھول رہے ہیں اور اس میں رقوم منتقل کر رہے ہیں، جنوری 2024ء میں یہ رقم 7.1 ارب ڈالر تھی جو کہ نومبر تک بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔

مانیٹری پالیسی اور بنیادی شرح سود

مانیٹری پالیسی کسی ملک کے مرکزی بینک یا مالیاتی اتھارٹی کی وہ حکمتِ عملی ہوتی ہے جس کا مقصد ملک کی معیشت میں موجود مالی وسائل اور ان کی رسد کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔

رواں سال سٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے جس میں شرح سود میں کمی یا اضافے کا فیصلہ کیا گیا، رواں مالی سال افراطِ زر کے تیزی سے نیچے آنے کی وجہ سے سٹیٹ بینک نے بھی بنیادی شرح سود میں کمی کا عمل شروع کیا۔

سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی 2023ء میں بنیادی شرح سود 21.5 فیصد مقرر کی گئی تھی، جون 2024ء تک بنیادی شرح سود بلند ترین سطح پر برقرار رہی، جون 2024 کے بعد افراط زر میں تیزی سے کمی ہونے لگی۔

اب دسمبر 2024ء میں بنیادی شرح سود 13 فیصد ہو چکی ہے جبکہ افراط زر 5 سے 6 فیصد کے درمیان ہے۔

ایک طویل عرصے بعد مہنگائی بنیادی شرح سود سے کم ہوئی ہے جس سے بینکوں کو حقیقی منافع کمانے میں فائدہ ہوگا، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی جیسی معیشت کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اصلاحات کا عمل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت میں مزید استحکام آسکتا ہے۔

یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے پروازوں پر عائد پابندی ختم

یورپی ایئرسیفٹی ایجنسی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) پر عائد پابندی ختم کر دی۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے پاکستانی ایئر لائنز سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ ہوگیا، ایاسا نے اپنے مکتوب میں وزرات ہوابازی اور پی آئی اے انتظامیہ کو باضابطہ آگاہ کیا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے انتظامیہ ایاسا اور ان کے قوانین اورضابطوں پر مکمل عمل پیرا رہے گا اور پی آئی اے انتظامیہ نے گزشتہ 4 سال کی انتھک محنت کے بعد یہ اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی یورپ کیلئے پروازوں کی بحالی کے بعد پہلی فلائٹ 10 جنوری 2025 کو اسلام آباد سے پیرس روانہ ہوگی، ابتدائی مرحلے میں ہفتہ وار 2 پروازیں چلائی جائیں گی جن کو بتدریج بڑھایا جائے گا، یہ پروازیں جمعہ اور اتوار کے دن آپریٹ ہوں گی۔

ٹیکس وصولی کا ہدف

ملکی معیشت میں مسائل کی بڑی وجہ معاشی سرگرمیوں کے مقابلے میں ٹیکسز کی وصولی کم ہونا ہے۔

رواں مالی سال میں حکومت نے ٹیکس وصولی کا بڑا ہدف طے کیا ہے، حکومت نے رواں مالی سال میں ایف بی آر کو وفاقی بجٹ کیلئے 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال سے 40 فیصد زائد ہے۔

گزشتہ پانچ ماہ میں ایف بی آر کو 4 ہزار 639 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ملا تھا جس کے مقابلے میں ایف بی آر 4 ہزار 295 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کر سکا یعنی ٹیکس وصولی ہدف سے 344 ارب روپے کم رہی ہے۔

ایف بی آر اصلاحات

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں تمام اصلاحات بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایف بی آر میں ٹیکس دہندگان کیلئے دوستانہ ماحول یقینی بنایا جائے۔

وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت نے غیر ملکی مالیاتی اداروں کی مشاورت، مالی اور تکنیکی معاونت سے وفاقی ادارہ محصولات (ایف بی آر) میں اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔

حکومت ٹیکس اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے جس میں صوبوں کے ساتھ مل کر زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کے علاوہ ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جن پر عمل ہو رہا ہے، ایف بی آر حکام کے ٹیکس دہندگان سے رابطے کو کم سے کم کرنے کیلئے ڈیجیٹائزیشن کا عمل جاری ہے۔

گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا کہنا ہے کہ نوٹسز ملنے کے باوجود جن لوگوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے ان کے خلاف کارروائی ہوگی، 27 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرا رہے، ٹیکس ادائیگی کیلئے سب کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔

غیر ملکی سرمایہ کاری

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، چین، ہانگ کانگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک ہیں جبکہ گزشتہ دو سالوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

اس حوالے سے حکومتی سطح اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے علاوہ سعودی حکومت کی ایما پر نجی سعودی سرمایہ کار بھی پاکستان آ رہے ہیں، سعودی سرمایہ کاروں کی جانب سے اس سال 2 دورے کئے گئے ہیں جن میں متعدد معاہدے بھی طے پا گئے اور ان پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔

سعودی حکومت پاکستان کے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے جبکہ سعودی ایندھن کی سب سے بڑی کمپنی’آرامکو’ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا ہے، پاکستان میری ٹائم شعبے خصوصاً بندرگاہوں میں گزشتہ 3 سال سے علاقائی اور یورپی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ مالی سال میں 1.9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی، موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 77 کروڑ ڈالر سے زائد رہی جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے سے 48 فیصد زائد ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع کی منتقلی میں 112 فیصد اضافہ

رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے منافع اور ڈیوڈنڈ کی واپسی میں 112 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ معاشی حالات میں بہتری اور سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا نومبر پاکستان میں کام کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے منافع اورڈیوڈنڈ کی مد میں 1.129 ارب ڈالر وطن بھجوائے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ رقم 52 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھی جو 59 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نمایاں اضافہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر بڑھتے ہوئے منافع کو ظاہر کرتا ہے، جو بہتر اقتصادی بنیادوں اور اہم شعبوں میں مالی کارکردگی کی مضبوطی سے حمایت یافتہ ہے۔

عام آدمی کیلئے صورتحال ابھی بھی پریشان کن کیوں؟

ماہرین معیشت کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ابھی بھی عام فرد کیلئے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

ماہر معیشت نے بتایا کہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ نہیں ہوا اس لئے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار میں کمی کے باوجود لوگ اب بھی فکر مند ہیں، اگلے ایک دو سال میں مشکل لگتا ہے کہ لوگوں کے معاشی مسائل حل ہو پائیں گے۔

سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی

پاکستان کی معیشت کو سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی سے بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے، سال 2018ء تک پاکستان نے اندرونی محاذ پر دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پا لیا تھا۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں بھی امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی تھی مگر بعد ازاں پالیسیز میں تبدیلی اور افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ 3 سال سے اضافہ دیکھا گیا ہے، اس حوالے سے ریاست نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے علاوہ خیبرپختونخوا میں خوارج کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ تیز کیا ہے۔

دوسری جانب سیاسی عدم استحکام اور ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مسلسل اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے نے معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق حکومت کو دھرنوں کی وجہ سے یومیہ 190 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہو رہا ہے۔

فروری میں انتخابات میں حکومت کے قیام میں آنے کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام پر کامیابی سے عملدرآمد نے معاشی استحکام کو میکرو سطح پر اجاگر کیا ہے لیکن ابھی اس کے اثرات عام آدمی کو محسوس نہیں ہوئے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ سال 2025ء ملکی معیشت کے لئے بہتر سال ثابت ہوگا۔