اسلام آباد: (دنیا نیوز) ایک اور معصوم بچی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اسلام آباد میں رہائش پذیر مہمند ایجنسی کی دس سالہ فرشتہ کو مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
پولیس نے کئی دنوں تک ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔ ایک ہفتے بعد لاش قریبی جنگل سے ملنے پر لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کر دی۔
بچی کو 15مئی کو تھانہ شہزاد ٹاؤن کے علاقے سے کھیلتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ لواحقین ایف آئی آر درج کروانے تھانے گئے لیکن پولیس نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔
غمزدہ خاندان کی ایف آئی آر درج ہوئی نہ ہی لڑکی کو تلاش کیا گیا۔ بچی کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے اور وہ والدین کیساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھی۔
ابتدائی معائنہ رپورٹ کے مطابق بچی کی لاش پر تشدد کے نشان پائے گئے جبکہ جسم کئی حصے جانوروں نے کھائے ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق ناکافی شواہد کی وجہ سے بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ مرتب کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بچی کے مختلف اعضا کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں جبکہ مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ سات روز بعد آئے گی۔
دوسری جانب واقعے کی انکوائری ایس پی رورل عمر خان کے سپرد کر دی گئی ہے۔ ڈی آئی آپریشنز کے مطابق بچی کے قاتل کا سراغ لگا لیا ہے۔ مجرم کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
ادھر اسلام آباد میں قتل ہونے والی فرشتہ مہمند کے واقعہ کے خلاف ٹرائبل یوتھ موومنٹ نے پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے اسلام آباد پولیس اور انتطامیہ کے خلاف نعرہ بازی کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
اطلاعات ہیں کہ فرشتہ زیادتی اور قتل کیس مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایس ایچ اور شہزاد ٹاؤن کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ انتظامیہ کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بلاول ابڑو کو جوڈیشل انکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے جو 7 دن میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔
احتجاجی مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات اسسٹنٹ کمشنر فیصل سلیم کے دفتر میں ہوئے۔ مظاہرین کی جانب سے آٹھ رکنی مذاکراتی ٹیم میں علی وزیر، محسن داوڑ اور عصمت شاہجہان شامل تھے۔
مذاکرات ٹیم میں ڈی سی حمزہ شفقات، اے ڈی سی وسیم خان او ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید بھی شامل تھے۔