نوشہرو فیروز: (دنیا نیوز) خلع کی درخواست پر تشدد کے دوران والد اور چچا نے خاتون کی ٹانگیں توڑ دیں، پولیس نے مقدمے میں نامزد 6 ملزموں میں سے 2 کو گرفتار کر لیا۔
نوشہرو فیروز کی مہران کالونی میں والدہ کے ساتھ رہنے والی صوبیہ شاہ نے اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لئے کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر خاتون کا باپ، چچا دیگر رشتے دار ناراض تھے۔
تین روز قبل ملزمان نے کلہاڑیوں کے وار کر کے خاتون کو شدید زخمی کر دیا، اطلاع ملتے ہی پولیس نے زخمی خاتون کو علاج کے لئے نوشہرو فیروز ہسپتال منتقل کر کے والد غلام مصطفیٰ شاہ سمیت 6 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس نے خاتون کے والد غلام مصطفیٰ اور چچا قربان شاہ کو گرفتار کر لیا ہے، پولیس کے مطابق باقی ملزمان کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس کا مزید کہنا ہے کہ خاتون نے پہلے عدالت میں تحفظ کے لئے درخواست دی تھی جس کے باعث انہیں سکھر کے دارالامان منتقل کیا گیا تھا اور بعد میں خاتون نے عدالت میں اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کی درخواست دی، عدالت نے خاتون کو والدہ کے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔
ملزمان نے حملہ کرکے خاتون کو زخمی کر دیا، خاتون کا علاج نوابشاہ ہسپتال میں کیا جا رہا ہے جس کی حالت پہلے سے بہتر بتائی جا رہی ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق صوبیہ کو بچپن میں ہی ان کے والد نے گھر سے نکال دیا تھا جس کے بعد سے وہ اپنے ننہیال میں والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں، صوبیہ کے مطابق انہوں نے اپنے ماموں اور دیگر بزرگوں کے اصرار پر دوسری شادی کی تھی لیکن وہ اس سے کافی عرصے تک ناخوش رہیں۔
صوبیہ نے بتایا کہ میری شادی ماموں کے بیٹے کے ساتھ کی گئی، وہ کراچی میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، غیر تعلیم یافتہ اور پسماندہ ذہنیت کا شخص تھا، وہ ہر چیز پر شک کرتا، اس قدر کہ اگر خواتین سے بات کرتی تو اس پر بھی وہم کا شکار ہوجاتا تھا۔
صوبیہ 6 جماعتیں پاس ہیں اور ان کا ایک 5 سالہ بیٹا بھی ہے، صوبہ کا کہنا تھا کہ شادی کو 8 سال ہونے کے باوجود بھی معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے تھے تو انہوں نے شوہر سے کہا کہ یا تو تم طلاق دے دو یا میں عدالت سے جا کر خلع لے لوں گی۔
صوبیہ نے بتایا کہ اس نے شوہر کی شکایت اپنے ماموں اور ساس سے بھی کی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے، اس کے بعد صوبیہ شاہ نوشہرو فیروز میں اپنی والدہ کے پاس آگئیں، بقول ان کے 7، 8 ماہ ہوگئے لیکن ان کے شوہر نے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی اپنے بیٹے کی خیریت معلوم کی۔
صوبیہ کے مطابق جب اس نے کیس دائر کیا تو واضح کہا کہ والد اور چچا وغیرہ درمیان میں نہ آئیں، انہوں نے بچپن سے یتیموں جیسی زندگی گزاری، اب یہ ہمارے وارث بن رہے ہیں، یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے، ان کے بقول اس پر ان کے والد اور چچا ناراض ہوئے اور دھمکیاں دینے لگے۔
متاثرہ خاتون کے مطابق 25 جولائی کو خلع کے کیس کی سماعت ہونا تھی اور ایک رات قبل ان پر حملہ کیا گیا، مقدمے کے متن کے مطابق سب لوگ رات کا کھانا کھا کر، کنڈی لگا کر سوگئے تھے مگر رات کو تقریباً ایک بجے والد، چچا اور کزن اسلحے اور کلہاڑیوں کے ساتھ گھر گھس آئے۔
انہوں نے صوبیہ پر بندوق کے بٹ سے تشدد کرنا شروع کیا، جب والدہ، بہن، بھائی درمیان میں آئے تو ان پر بھی تشدد کیا گیا، وہ کہتی ہیں کہ میرے بازو اور ٹانگیں پکڑی گئیں، اس کے بعد والد نے دونوں ٹانگوں پر وار کیے اور میں تڑپتی رہی۔
صوبیہ کے بقول ان کے والد نے ان سے کہا کہ اب تمھاری ٹانگیں توڑ دی ہیں، لنگڑا کر دیا ہے، دیکھتے ہیں عدالت کیسے جاتی ہو، پھر بھی عدالت گئی تو اگلی مرتبہ جان سے جاؤ گی، عورت ہو کر معتبر بنتی ہو اور عدالت میں جاتی ہو۔
متاثرہ خاتون کے مطابق صبح 6 بجے تک ان کا خون بہہ رہا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہوگئی جس کے بعد چھوٹا بھائی تھانے گیا اور پولیس نے انہیں ہسپتال منتقل کیا۔
صوبیہ پر حملے کے مقدمے میں نامزد 6 میں سے 2 ملزم گرفتار ہیں جبکہ 4 ملزمان نے عدالت سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے، بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مقدمے میں قابل ضمانت دفعات شامل کی ہیں، ماسوائے دفعہ 324 کے۔
ایف آئی آر میں ملزمان کا زخموں کے حوالے سے کردار بھی واضح نہیں کیا گیا، جیسے کہ فلاں ملزم نے سر پر اور فلاں نے ٹانگ پر چوٹ لگائی، جس سے ملزمان کو ضمانت میں فائدہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ایس ایس پی صدام خاصخیلی کہتے ہیں ڈاکٹروں کی رپورٹس کے مطابق ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔