لاہور: (ویب ڈیسک) اردو ادب کی معروف شخصیت اشفاق احمد کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے۔
اردوادب کی معروف شخصیت اشفاق احمد کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے لیکن اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کے اتنے برس بعد ان کی جگہ کوئی نہ لے سکا، جو اپنے قصے، کہانیوں سے علم و حکمت، عقل ودانش اورفکرودانش کے موتی بکھیرسکے۔
اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع ہوشیارپور کے گاؤں خان پور میں پیدا ہوئے۔ 1947میں قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ افسانہ اورڈرامہ نگاری کے ساتھ فلسفی ، ادیب اور دانشور ہونے کے علاوہ بہترین براڈ کاسٹرتھے۔
گورنمٹ کالج لاہورسے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد ریڈیو آزاد کشمیر سے منسلک ہوئے۔ روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد بھی رہے اور وطن واپسی کے بعد ادبی مجلہ “داستان گو” جاری کیا۔ 60ء کی دہائی میں ایک فیچر فلم ”دھوپ اور سائے” بھی بنائی۔ ریڈیو پاکستان پر ان کے پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ اور پی ٹی وی پر ڈراما سیرئیل ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ سے انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ نوے کی دہائی میں اشفاق احمد نے سماجی و روحانی موضوعات پر گفتگو کا پروگرام’’زاویہ‘‘ شروع کیا جس نے ان کی شہرت کو ایک نئی جہت عطا کی۔
1953ء میں شائع ہونے والے افسانے ”گڈریا ” نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ اشفاق احمد کی تصانیف میں ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ ، ’’اجلے پھول‘‘، ’’سفردرسفر‘‘، ’’کھیل کہانی‘‘، ’’طوطا کہانی‘‘ اور زاویہ جیسے بہترین شاہکار شامل ہیں۔
اشفاق احمد نے بانو قدسیہ سے شادی کی، جو خود بھی معروف مصنفہ اور ادیبہ تھیں۔ اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ اشفاق احمد 7 ستمبر 2004ء کواپنے خالق حقیقی سے جاملے۔