لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کی خوبرو اور معروف اداکارہ نادیہ حسین نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں ماڈلنگ کے لیے اجازت کا ملنا بھی بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے، والدین کو چاہیے کہ بچے بچیوں کو وہ کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو کے دوران اداکارہ کا کہنا تھا کہ پلاسٹک سرجری ایک مہنگا شوق ہے اور جو لوگ مالی استطاعت رکھتے ہیں،انہیں ضرور کروانی چاہیے۔ پلاسٹک سرجری کروانے کے حق میں ہوں، اگر کبھی لگا کہ پلاسٹک سرجری کروانی چاہیے تو ضرور کروائیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو سرجری اور بوٹوکس ٹریٹمنٹ میں فرق کو ضرور سمجھنا چاہیے۔ وہ خود بھی نان سرجیکل ٹریٹمنٹ کرواتی ہیں اور کرتی بھی ہیں، لیکن سرجیکل ٹریٹمنٹس نہ تو کیے اور نہ ہی کروائے۔
نادیہ حسین نے فیشن انڈسٹری میں تخلیقی کام کے حوالے سے کہا کہ چند برسوں سے مسلسل فیشن ویکس کا انعقاد ہو رہا ہے لیکن تخلیقی کام کی کمی ہے۔ اس کے باوجود کام اچھا ہو رہا ہے۔ طلبہ کے فیشن شوز ضرور ہونے چاہییں،ان میں بہت زیادہ تخلیقی کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کل فیشن شوز میں ڈیزائنرز پیسے دے کر شرکت کرتے ہیں اور کلیکشن دکھاتے ہیں۔ وہ بھی بزنس کے نقطہ نظر سے ہی ریمپ پر آتے ہیں اور اپنی کلیکشن دکھاتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پوز بنا لینا اور ریمپ پر چلنا، کپڑوں کی نمائش کرنا ہی ایک ماڈل کا بنیادی کام ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں بہت ساری ایسی لڑکیوں سے ملی جو ماڈلنگ کرنا چاہتی تھیں لیکن انہیں اجازت نہ مل سکی۔ ہمارے ہاں ماڈلنگ کے لیے اجازت کا ملنا بھی ایک بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے، والدین کو چاہیے کہ بچے بچیوں کو وہ کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔
نادیہ سمجھتی ہیں کہ اچھے ماڈل کا اچھا اداکار ہونا ضروری نہیں ہے، بعض اوقات بہت ہی خوب صورت ماڈلز خود کو اچھا اداکار ثابت نہیں کر سکتے۔ ’اداکاری بہت ہی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اب آپ کا اگر سین نہیں ہے کسی دوسرے اداکار کا سین شوٹ ہو رہا ہے تو آپ کو بیٹھنا پڑے گا، آپ گھنٹوں انتظار کرتے رہیں گے۔
انٹرویو کے دوران اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ باہر کے ملکوں میں ماڈلز 30 سال تک بھی کام کر لیتی ہیں، لیکن پاکستان میں باتیں شروع ہوجاتی ہیں کہ بھلا کب تک ماڈلنگ کرتی رہو گی، اسی طرح سے ہمارے ایسے اداکار جنہوں نے کئی سال تک محنت کی وہ اگر ہیرو آجائیں کسی ڈرامے میں تو باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ لو یہ اب بھی ہیرو آرہا ہے۔