کراچی: (لبنیٰ ممتاز) عائشہ غازی کی دستاویزی فلم "جال میں جکڑے اچھوت" نے پاکستان میں ہندوؤں کی جبری شادیوں اور قبول اسلام کے پروپیگنڈا کا پردہ چاک کر دیا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان میں ہندو ازم کی سیاست کے چشم کشا حالات و واقعات کا احاطہ کرتی عائشہ غازی کی دستاویزازی فلم کی رونمائی آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی جس میں ہندوستان میں بابری مسجد کے انہدام سے لیکر پاکستان کے دیہی سندھ کے علاقوں میں جبری تبدیلی مذہب، شہریوں کے اغوا اور جبری شادی کے مسائل کو دیکھایا گیا ہے۔
دستاویزازی فلم میں میگھواڑ دلت اور بھیل ذاتوں کے رہن سہن کا احاطہ بھی کیا گیا، فلم میں دکھایا گیا ہے کہ پس پردہ حقائق یکسر مختلف ہیں کیونکہ 700 ہندو لڑکیوں میں کوئی ایک کیس بھی جبری شادی یا قبول اسلام کا ثابت نہیں ہو سکا ہے۔
کراچی کے بعد اس فلم کی سکریننگ اسلام آباد، پشاور، ملتان جبکہ بین الاقوامی سطح پر لندن میں کی بھی جائیگی۔
دستاویزی فلم میں ہندو برادری کے ایک فرد نے بتایا کہ بہکاوے میں پاکستان سے جودھ پور بھارت گئے تو وہاں کھانا الگ برتنوں میں دیا گیا جس کے بعد واپسی کی راہ لی۔
اپنی نوعیت کی منفرد دستاویزی فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کاسٹ ڈسکریمینشن کا آغاز ہندوستان سے ہوا یہی وجہ مسلمان اور ہندوؤں کے بٹوارے کی وجہ بنی، بھارت میں 80 فیصد اہم عہدوں پر برہمن براجمان ہیں جبکہ پاکستان میں دلت ڈاکٹرز بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کا موقف ہے کہ اقلیتی برادری کے بچوں اور بالخصوص بچیوں کو شادیوں کے ذریعے جبری مسلمان بنایا جا رہا ہے، اس حوالے سے تحقیق کرنے والے ایک ادارے سینٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2020 تک ایسے 162 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ یعنی 51.85 فیصد کا تعلق پنجاب سے اور 43.83 فیصد کا تعلق سندھ سے۔
رپورٹ کے مطابق 1.23 فیصد کا تعلق وفاق جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جبکہ ان کیسز میں بہاولپور پہلے، لاہور دوسرے، کراچی تیسرے، فیصل آباد چوتھے، حیدر آباد پانچویں، تھرپارکر چھٹے، گھوٹکی ساتویں، قصور آٹھویں، بدین نویں، عمر کوٹ دسویں اور سیالکوٹ 11 ویں نمبر پر ہے۔
اقلیتوں میں جس مذہب کی سب سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں ان میں ہندو ازم 53.3 فیصد کے ساتھ پہلے، مسیحی 44.44 فیصد کے ساتھ دوسرے، سکھ 0.62 کے ساتھ تیسرے اور کیلاشی 0.62 کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔
2021 میں سندھ کے ضلع بدین کے شہر ماتلی کے ایک گوٹھ میں ہندو برادری کے 60 افراد کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوئے جن میں 13 خواتین بھی شامل تھیں تاہم اس کو بھی بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے جبری مذہب تبدیلی کا ہی نام دیا گیا تھا۔
عائشہ غازی کی اس دستاویزی فلم میں لڑکیوں کو جبری مسلمان کر کے ان سے شادی کرنے جیسے پروپیگنڈے کا موثر جواب دیا گیا ہے۔