لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) غیبت ایک بُری عادت ہے جس سے دین و دنیا دونوں کی خرابی کا قوی اندیشہ ہے، غیبت کرنے والا خود کا نقصان کرتا ہے، غیبت نیکیوں میں کمی کا سبب بنتی ہے اور بندے کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیتی ہے،یہ ایک ایسا گناہ ہے جب تک جس کے بارے میں غیبت کی وہ معاف نہ کرے یہ گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا ’’غیبت زنا سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے‘‘، بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ غیبت زنا سے زیادہ سخت و سنگین کیونکر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: (بات یہ ہے کہ) آدمی اگر بدبختی سے زنا کر لیتا ہے تو صرف توبہ کرنے سے اس کی معافی اور مغفرت اللہ پاک کی طرف سے ہو سکتی ہے مگر غیبت کرنے والے کو جب تک خود وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے، اس کی معافی اور بخشش اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگی (شعب الایمان للبیہقی)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تمہیں اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)
اگر کوئی آدمی کسی کی پیٹھ پیچھے کوئی ایسی بات کرے جو اگر اس کو معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے، یہ غیبت کہلاتی ہے جبکہ بہتان اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کی طرف ایسی کسی برائی اور بد اخلاقی کی نسبت کی جائے جس سے بالکل وہ بری ہو اور وہ پاک ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے (مسلمان) بھائی (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناگوار گزرے (بس یہی غیبت ہے)، کسی نے عرض کیا: اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعتاً اس میں ہو (تو کیا یہ بھی غیبت ہے)؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اگر وہ برائی جو تم بیان کر رہے ہو اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس میں موجود ہی نہ ہو تو پھر تم نے اس پر بہتان باندھا (ابو داؤد :4874)۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات میں ایسے لوگ دیکھے جن کے ناخن سرخ تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے جبرائیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں، جبرائیلؑ نے عرض کیا یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کا گوشت کھاتے تھے یعنی غیبت کرتے تھے اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے (مشکوٰۃ شریف : 974)۔
یہ تو غیبت کرنے والے کے حال جہنم کا بیان ہے مگر غیبت کرنے والے پر تو قبر سے ہی عذاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے، ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے‘‘ (سنن ابن ماجہ، جلد اوّل، حدیث: 349)
موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بد قسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس، جسم، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو۔
مثال کے طور پرکہا جائے کہ اس کا قد چھوٹا ہے یا اس کا رنگ کالاہے، وہ بری عادات والا ہے، یا مغرور، بد تمیز اور بزدل ہے، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور، بے ایمان، بے نمازی ہے، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے، یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے، زبان دراز ہے، پیٹو ہے، سوتا بہت ہے، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے‘‘ ( مسند امام احمد)، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں، اللہ رب العزت ہمیں اس مرض سے بچائے اور اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے، آمین۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔