لاہور: (ویب ڈیسک) امریکا کے شہر نیویارک میں ظہران ممدانی تاریخ رقم کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود پہلے مسلم میئر منتخب ہو گئے ہیں۔
نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے 34 سالہ رکن ممدانی نے سال کا آغاز ایک نامعلوم امیدوار کے طور پر کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب سے اوپر پہنچ گئے، ان کا انتخاب ترقی پسندوں کے لیے اس بدلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے، جو شہر کی سیاست کے مرکز میں تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔
پسِ منظر
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ان کا پورا نام ظہران کوامے ممدانی ہے، وہ 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمود ممدانی ایک انڈیا یوگنڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلمساز ہیں۔
ظہران اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ سات سال کے تھے تب خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے، انہوں نے نیویارک کے علاقے برونکس میں پرورش پائی جو کہ ایک ملازت پیشہ آبادی کا علاقہ ہے اور ثقافتی تنوع سے بھرپور ہے، انہوں نے افریکانا سٹڈیز میں گریجویشن کی ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔
سفر کا آغاز
سنہ 2024 میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی، تعلیم حاصل کرنے کے بعد ظہران نے بطور ’فورکلوزر پریوینشن کونسلر‘ کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں سے قرض کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ظاہر ہے۔
گلوکاری
سیاست کی طرف رخ کرنے سے پہلے ظہران ممدانی نے فنکاری میں اپنی قسمت آزمائی، وہ مسٹر کارڈیمم یعنی الائچی والا کے نام سے ریپ گانا گایا کرتے تھے اور 2019 میں ان کا گانا ’نانی‘ خاصا زیر بحث رہا، جس میں مصنفہ مدھر جعفری نے ایک بےباک نانی کا کردار ادا کیا۔
ان کے ایک ریپ گانے میں پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی حصہ لیا تھا اور جو کہ ان کی حالیہ انتخابی مہم کے حمایت میں نظر آئے ہیں، ممدانی نے بتایا کہ فنکار اس دنیا کے کہانی نگار ہوتے ہیں، اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ صرف برائے نام ہمارے ساتھ نہ ہوں بلکہ ہم ان کے شانہ بشانہ ساتھ چل رہے ہوں۔
پہلی فتح
2020 میں انہوں نے نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی، وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے۔
میئر کے الیکشن کے لیے ان کی مہم میں نیویارک کے عام لوگوں نے کافی دلچسپی دکھائی کیونکہ انہوں نے ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو کہ نیویارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
سوشلسٹ نظریہ
ظہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی تھی جس میں انہوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا تاہم ان کے ناقدین مثلا نیویارک ٹائمز اخبار کے ادارتی بورڈ کا خیال ہے کہ یہ منصوبے مالی طور پر ممکن نہیں ہیں۔
انہوں نے اپنے مسلم عقیدے کو بھی اپنی انتخابی مہم کا ایک نمایاں حصہ بنایا اور جہاں باقاعدگی سے مساجد کا دورہ کیا وہیں شہر کے اخراجات کے بحران کے بارے میں اردو میں ایک ویڈیو بھی جاری کی، ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے عوام میں کھڑے ہونا اس تحفظ کی قربانی دینا بھی ہے جو ہمیں کبھی کبھی سامنے نہ آ کر مل سکتا ہے۔
مزاحیہ اندازِ سیاست
ظہران کا اندازِ سیاست مزاحیہ ضرور تھا لیکن اس میں سنجیدگی بھی تھی، ان کی انتخابی مہم کی ویڈیوز بالی وڈ کے حوالوں کے ساتھ سماجی انصاف کے پیغامات سے بھرپور تھیں۔
ایک ویڈیو میں وہ آم کی لسی کے پانچ گلاس لے کر رینکڈ چوائس ووٹنگ (نیو یارک کا انتخابی نظام جہاں ووٹر امیدواروں کو پہلی سے پانچویں نمبر تک ترجیح دیتے ہیں) کی وضاحت کرتے دکھائی دیے تو ایک پاڈ کاسٹ پر یہ بتایا کہ ان کی مہم لوگوں میں اتنی مقبول ہوئی ہے کہ لوگ اکثر ان کی ڈائریکٹر والدہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسے انہوں نے بنایا ہے۔
ایک ٹی وی پر نشر مباحثے کے دوران اینڈریو کومو نے بار بار ظہران ممدانی کا غلط نام لیا، ظہران نے تحمل سے ان سے کہا کہ ان کا نام مم-دا-نی ہے، اور پھر مسکراتے ہوئے کومو کے 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزام کے بعد استعفے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی شرمندگی کے باعث استعفیٰ نہیں دیا، میں نے کبھی غریبوں کے لیے صحت کے منصوبے میں کٹوتی نہیں کی، میں نے کبھی خواتین سے ان کی زچگی کے میڈیکل ریکارڈز کی بنیاد پر مقدمہ نہیں کیا، میں نے یہ سب کبھی نہیں کیا کیونکہ میں آپ نہیں ہوں، مسٹر کومو۔
پچھڑے طبقات کی حمایت
ظہران کے حامیوں میں نوجوان ووٹرز، تارکینِ وطن اور ترقی پسند طبقات شامل ہیں، شہر کے جیکسن ہائٹس جیسے محلوں میں، جہاں جنوبی ایشیائی، لاطینی امریکی، اور مشرقی ایشیائی کمیونٹیز آباد ہیں، ان کی مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
ان کے لیے کام کرنے والے رضاکار انگریزی کے علاوہ ہندی، اردو، بنگلہ اور ہسپانوی زبانوں میں میں گھر گھر جا کر ان کے حمایت میں مہم چلا رہے تھے، ان کی انتخابی مہم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نیویارک شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا فیلڈ آپریشن کیا ہے، جو تقریباً 40,000 رضاکاروں پر مشتمل ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ گھروں تک پہنچے ہیں۔
فلسطین پر مؤقف
کچھ تنظیموں نے بھی فلسطینیوں کے لیے ظہران کی حمایت اور اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے الزام پر اعتراض کیا ہے، اس کے جواب میں ظہران نے واضح کیا ہے کہ وہ یہود مخالف بیانیے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ہر قوم، مذہب اور نسل کے لیے برابری کے حامی ہیں۔
ممدانی وائرل ویڈیوز اور پوڈکاسٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے ان ووٹروں تک پہنچے ہیں جو پارٹی سے مایوس ہیں، اور انہوں نے یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے ارکان کا اعتماد کم ترین سطح پر ہے۔
رکاوٹیں
سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے بڑے وعدے پورے کر پائیں گے اور بغیر کسی انتظامی تجربے کے وہ ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کا سامنا کیسے کریں گے، ان کا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تعلق بھی پیچیدہ ہے کیونکہ وہ بائیں بازو کے ڈیموکریٹس کے لیے قومی سطح پر نمایاں شخصیت بن چکے ہیں۔
ممدانی خود کو جمہوری سوشلسٹ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بڑی کمپنیوں کے بجائے کارکنوں کی آواز سنائی جائے، یہ ویسا ہی سیاسی طرزِ عمل ہے جو برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے اپنا رکھا ہے اور ممدانی ان کے ساتھ اکثر سٹیج شیئر کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیویارک کے شہری کمیونسٹ کو منتخب کرتے ہیں تو وفاقی فنڈز روک دیے جائیں گے، ممدانی کا جواب ہے کہ وہ سکینڈے نیوین سیاستدان کی طرح ہیں، بس رنگ تھوڑا سانولا ہے۔



