معروف پنجابی شاعر استاد دامن کو مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت گئے

Published On 03 December,2025 02:52 am

لاہور: (دنیا نیوز) معروف پنجابی شاعر استاد دامن کو مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت گئے۔

مزدوروں، کسانوں، غریبوں اور مظلوموں کے شاعر استاد دامن نے ہمیشہ پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دیا، اُن کی یادیں اور باتیں اُن کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے،عالمی ادب پر بھی ان کی توجہ تھی، ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی مشہور ہے، چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ کتابوں کے درمیان زندگی گزارنے والے استاد دامن کی جرأت اظہار اور حق گوئی کی مثال دی جاتی ہے۔

وہ کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار تھے جنہیں پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے، استاد دامن مصلحت سے پاک، ہر خوف سے آزاد تھے، انہوں نے فیض و جالب کی طرح جبر اور ناانصافی کے خلاف عوامی لہجے میں اپنی شاعری سے لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا۔

استاد دامن نے عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام سے بے حد مقبولیت اور پزیرائی حاصل کی، ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ صلے اور ستائش سے بے نیاز ہوکر حق اور سچ کا ساتھ دینے والے استاد دامن 1910ء کو پیدا ہوئے۔

لاہور ان کا مستقر تھا جہاں اپنے والد کے ساتھ کپڑے سینے کا کام کرتے رہے، انہوں نے خیاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس کا باقاعدہ ڈپلومہ بھی حاصل کیا، انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھال لیا اور تعلیمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔

پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب انہیں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور مشاہیر سمیت ہر دور میں اہل علم پنجابی زبان و ادب کے لئے ان کی خدمات کے معترف ہیں، استاد دامن 3 دسمبر 1984ء کو وفات پاگئے تھے، انیں لاہور میں مادھولال حسین کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔