کورونا وائرس: جعلی خبروں سے بچنے کیلئے چہرے کے ساتھ کانوں پر ماسک چڑھا لیں: ظفر مرزا

Last Updated On 06 April,2020 08:25 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) چین سے جنم لینے والے کورونا وائرس کی عالمی تباہی کی لپٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور یہ خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ یہ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم کورونا وائرس جہاں تیزی سے پھیل رہا ہے وہیں پر جعلی خبریں بھی درد سر بنی ہوئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چین سے پھیلنے والے متعدد ممالک میں کورونا وائرس سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنیکی ہدایات دی جا رہی ہیں وہیں پر ایک اور مسئلے نے سر اٹھانا شروع کیا ہوا ہے، مہلک وباء کے باعث جعلی خبروں کے ذریعے مزید خوف پھیلایا جا رہا ہے، تاہم کچھ ممالک نے اس پر بر وقت کارروائی کر کے قابو پانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ مسئلہ مسلسل تیزی سے پروان چڑھتا جا رہا ہے۔

 

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے صحت ظفر مرزا نے لکھا کہ آپ چہرے کے ماسک کے ساتھ ساتھ کانوں پر بھی ایک ماسک چڑھا لیں تاکہ اس عالمی وبا کے دوران جھوٹ پر مبنی خبروں سے بچ سکیں۔ کورونا کے ساتھ ساتھ غلط معلومات سے بھی بچیں۔

 

اس سے قبل وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، صوبائی وزیر پنجاب فیاض الحسن چوہان سمیت متعدد حکومتی وزراء اکثر اپنے پریس کانفرنس اور ٹیلی ویژن کے دوران کہتے رہتے ہیں کہ جعلی خبروں کی وجہ سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی ہے۔

واضح رہے کہ چند ہفتے قبل برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا تھا کہ کورونا وائرس سے زیادہ بڑا مسئلہ جعلی خبریں ہیں، جن پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اس وقت کورونا وائرس سے متعلق سب سے زیادہ جعلی خبریں سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر پھیلائی جا رہی ہیں، جس کے صارفین کی تعداد اربوں میں ہے۔ وہیں پر کچھ لوگ ’یوٹیوب‘ پر بھی جعلی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے خوف پھیلا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ان خبروں پر کو روکنے کے لیے بر وقت کارروائی نہ کی گئی تو مستقبل میں مزید بڑا بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ موبائل ٹیکنالوجی میں فیس بک اور یو ٹیوب سرفہرست کی ویب سائٹس ہیں، فائیو جی ٹیکنالوجی کے باعث دونوں سائٹس پر انٹرنیٹ کی سہولیات مزید بہتر ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس پر جعلی خبریں پھیلانے پر ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ہنگری میں متعدد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سنگا پور میں سخت قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق فیس بک پر زیادہ آسانی سے خبریں پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی اس ویب سائٹ پر ’ہزاروں گروپس‘ بنے ہوئے ہیں جہاں پر لوگ ایک خبر شیئر کرتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتی ہے اور لوگ ان خبروں پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

چند روز قبل اٹلی کے وزیراعظم جوزیپی کونتے کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متعلق ملک میں پھیلنے والی جعلی خبروں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

اٹلی کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، ان خبروں کی وجہ سے بہت سارے مسائل سر اٹھا رہے ہیں، ان جعلی خبروں کو روکنے کے لیے ہمیں جلد سے جلد اقدامات کرنا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ وقت ایکشن لینے کا ہے، ہمیں ہر حال میں ان جعلی خبروں کو پھیلنے سے روکنا ہو گا، کورونا وائرس سے متعلق ہمارے کوئی سکول بند نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی کوئی خوراک کی قلت ہے۔

یاد رہے کہ گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نے کورونا وائرس کے حوالے سے غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کی روک تھام کے ساتھ صارفین کو مددگار اور مستند ذرائع سے تفصیلات کی فراہم کے لیے مختلف اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔

فیس بک کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے غلط معلومات کو فلیگ اور سائٹ سے ہٹانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام کمپنی کے موجودہ قواعد کے مطابق ہے جس میں انسان کو نقصان پہنچانے والے مواد کے پیشِ نظر اس طرح کے مواد کو ہٹایا جاتا ہے۔جس طرح فیس بُک نے سیاست اور دیگر امور کے بارے میں غلط معلومات ہٹانے کے حوالے سے ماضی میں اقدامات کیے۔

حکام کا کہنا تھا کہ کمپنی کورونا وائرس کے بارے میں فیس بک پر شیئر کیے جانے والے غلط مواد کو ہٹائے گی۔ توجہ ایسی پوسٹوں پر مرکوز ہے جو کورونا وائرس کے علاج کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس وائرس سے نمٹنے کے لیے جھوٹی تجاویز پوسٹ کر رہے ہیں۔

گوگل کی جانب سے کورونا وائرس سرچز کے لیے ایک ایس او ایس الرٹ بنایا گیا جبکہ ٹوئٹر نے کہا کہ وہ اس حوالے سے سرچ کرنے والے افراد کو بیماری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے آفیشل چینیلز کی جانے لے کر جائے گی۔
 

Advertisement