آم کے پتوں کی طبی افادیت

Last Updated On 12 June,2020 08:10 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) لوگ آم کے درخت پر اگنے والے میٹھے پھل سے تو واقف ہیں لیکن شاید انہیں علم نہیں کہ اس درخت کے پتے بھی کھائے جا سکتے ہیں۔

آم کے تازہ پتے بہت ملائم ہوتے ہیں اس لیے بعض معاشروں میں انہیں پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ چونکہ ان پتوں کو غذائیت سے بھرپور تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان سے چائے تیار کی جاتی ہے اور سپلیمنٹ بھی بنائے جاتے ہیں۔

منگیفرا انڈیکا کہلانے والی آم کی اقسام کو آیوویدک اور روایتی چینی طریقہ علاج میں زخموں کو مندمل کرنے کے لیے ہزاروں برسوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پتے ذیابیطس اور صحت کے دوسرے مسائل میں مفید ہیں۔ آم کے درخت کی چھال اور ٹہنیوں کے علاوہ اس کے پھل کو دیسی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ذیل میں آم کے پتوں کے ان فوائد کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کی تصدیق سائنس بھی کرتی ہے۔

نباتی مرکبات سے بھرپور

آم کے پتوں میں بہت سے مفید نباتی مرکبات ہوتے ہیں جن میں پولی فینولز اور ٹرپینائیڈز شامل ہیں۔ ٹرپینائیڈز بینائی اور قوت مدافعت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ یہ اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہیں جو فری ریڈیکل کہلانے والے نقصان دہ مالیکیولز سے ہمارے خلیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

دوسری جانب پولی فینولز میں اینٹی آکسیڈنٹ اور مانع سوزش خصوصیات ہوتی ہیں۔ بعض تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ یہ گٹ بیکٹیریا (نظام انہضام میں پائے جانے والے مفید جرثومے) میں بہتری لاتے ہیں اور موٹاپا، ذیابیطس، دل کے امراض اور سرطان کے علاج یا ان سے محفوظ بنانے میں معاون ہیں۔
بہت سے پودوں میں ایک پولی فینول پایا جاتا ہے جسے مینگیفرین کہتے ہیں البتہ آم اور آم کے پتوں میں اس کی مقدار خاص طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بہت زیادہ طبی فوائد بتائے جاتے ہیں۔

اسے جراثیم کش عنصر، گلٹی، ذیابیطس، امراض قلب اور چکنائی کے انہضام کے مسائل کا ممکنہ علاج خیال کیا جاتا ہے تاہم اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مانع سوزش خصوصیات

آم کے پتوں کے بیشتر فوائد کا سبب اس کی مانع سوزش خصوصیات ہیں۔ مدافعتی ردعمل سے جسم میں سوزش ہونا اگرچہ معمول کا امر ہے لیکن دیرینہ سوزش سے مختلف بیماریوں کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ آم کے پتوں کی مانع سوزش خصوصیات دماغ کو الزائمر یا پارکنسن جیسے مسائل سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

موٹاپے سے نجات

آم کے پتوں کا ست موٹاپے، ذیابیطس اور میٹابولک سینڈروم میں مفید ہو سکتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی متعدد تحقیقات کے نتائج کے مطابق آم کے پتوں کا ست بافتوں کے خلیوں میں چکنائی کے اجتماع کو روکتا ہے۔ چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آم کے پتوں کا ست چکنائی کی سطح کم کرتا ہے اور اڈیپونیکٹن کی سطح کو بڑھاتا ہے۔

اڈیپونیکٹن خلیوں کو پیغام دینے والی ایک پروٹین ہے جو جسم میں چکنائی کے میٹابولزم اور شکر کے توازن میں کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی زیادہ مقدار موٹاپے اور موٹاپے سے متعلق دیرینہ امراض سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔
زیادہ وزن کے حامل 97 بالغوں پر 12 ہفتے ہونے والی تجربے میں جن شرکا کو روزانہ 150 ملی گرام مینگیفرین دی گئی، ان کے خون میں چکنائی کی سطح کم رہی اور ان میں انسولین ریززٹنس انڈیکس کا سکور بھی خاصا اچھا رہا۔ انسولین کی کم ریززٹنس ذیابیطس میں فائدہ مند ہے۔

ذیابیطس میں بہتری

چکنائی کے میٹابولزم پر اثرانداز ہونے کے باعث آم کے پتے ذیابیطس میں مفید ہو سکتے ہیں۔ ٹرائی گلیسیرائیڈکی سطح میں اضافہ کا تعلق عموماً انسولین ریززٹنس اور ٹائپ 2 ذیابیطس سے جوڑا جا سکتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی ایک تحقیق میں جب انہیں آم کے پتوں کا ست دیا گیا تو 2 ہفتوں بعد ان میں ٹرائی گلیسیرائیڈ اور بلڈشوگر کی سطح قابل ذکر حد تک کم ہو گئی۔

مانع سرطان خصوصیات

متعدد جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ آم کے پتوں میں پائی جانے والی مینگیفرین میں مانع سرطان اثرات موجود ہیں کیونکہ یہ تکسیدی دباؤ (آکسیڈیٹو سٹریس) اور سوزش کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب تحقیقات کے مطابق یہ لوکیمیا، دماغ، سینے، رحم اور پروسٹیٹ سرطان کے خلاف مؤثر ہے۔ علاوہ ازیں آم کے چھلکے میں پولی فینول کی ایک اور قسم لیگنانز کے باعث اس میں سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ البتہ آم کے پتوں کو سرطان کا علاج تصور نہ کیا جائے۔

معدے کے السر کا علاج

معدے کے السر اور نظام انہضام کی دیگر خرابیوں کے لیے آم کے پتے اور دیگر حصے تاریخ میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔ کترنے والے جانوروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آم کے پتوں کا 250 سے 1000 ملی گرام فی کلو (جسمانی وزن کے مطابق) تک ست معدے کے زخموں کی تعدادکم کر دیتا ہے۔

تحریر: سسیلیا سنائیڈر

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا (بشکریہ   ہیلتھ لائن‘‘)