ذیابیطس کا عالمی دن

Published On 14 November,2022 12:43 pm

لاہور: (ڈاکٹر سہیل) دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن ہر سال 14نومبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں آج تقریباً ہر گھر میں شوگر کا مریض موجود ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں اس مرض میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں ہمارا نمبر تیسرا ہے جبکہ مڈل ایسٹ اور افریقہ کے 21ممالک کی فہرست میں ہمارا نمبر دوسرا ہے۔ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3کروڑ30لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

شوگر کے مرض کو سمجھنے کیلئے پہلے ہمیں چند بنیادی چیزوں کو سمجھنا ہوگا ۔سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شوگر کیا ہے اور ہمیں شوگر کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ ہماراوجود اربو ں سیلز سے مل کر بنا ہے اورہر سیل کو زندہ رہنے کیلئے ہر لمحہ انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انرجی تب آتی ہے جب سیل شوگر (گلوکوز ) کو برن کرتا ہے۔ شوگر ہمارے لئے انرجی کا ایک ذریعہ ہے اور یہ شوگر ہمیں کھانے پینے کی چیزوں سے ملتاہے۔ خوراک میں انرجی کی مقدار کو کیلوریز میں ماپا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کو زندہ رہنے کیلئے جتنی کیلوریز درکار ہوتی ہیں اس کا انحصار اس کے لائف سٹائل، جنس، قد، سائز اور اس کی صحت پر ہوتا ہے۔ عموماً ایک مرد کو دن بھر میںڈھائی ہزار کیلوریز اور خواتین کو 2ہزارکیلوریز کی ضروت ہوتی ہے۔

کھانے کی مختلف چیزوں میں مختلف مقدار میں کیلوریز ہوتی ہیں جیسا کہ 2 کپ پالک میں 16 کیلوریز اور ایک کپ مکئی میں 123 کیلوریز ہوتی ہیں۔ اسی طرح سوگرام گندم کی ایک روٹی میں 340 کیلوریز ہوتی ہیں ۔ہم اپنی ضرورت کی 65فیصد کیلوریز کاربو ہائیڈریٹس سے حاصل کرتے ہیں۔ ہم جو کھانا کھاتے ہیں اس میں تین اجزاء ہوتے ہیں۔

 1:فیٹ ، 2:پروٹین، 3:کاربوہائیڈریٹ

 ان تینوں میں کاربوہائیڈریٹ ہی ایسا جزو ہے جس سے شوگر(گلو کوز) بنتا ہے۔کاربو ہائیڈریٹ کا آسان مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز جو باڈی میں جاکر شوگر(گلوکوز) میں تبدیل ہو جائے وہ کاربو ہائیڈریٹ ہے۔ چاہے وہ چیز میٹھی ہو، نمکین یا پھیکی ۔ جب آپ کھانے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں تو اصل میں آپ کاربو ہائیڈریٹ کھانے کا سوچتے ہیں۔ آپ کوئی بھی بیکری آئٹم، فاسٹ فوڈ، کولڈ ڈرنکس،آئس کریم، فروٹ ،روٹی ،سبزی یا دال چاول کھاتے ہیں تو درحقیقت آپ کاربوہائیڈریٹ ہی کھا رہے ہوتے ہیں۔

 کاربوہائیڈریٹ کو ہم چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

 1: Monosaccharide
2: Disaccharides
3: Oligosaccride
4: Polysaccride
ان چاروں کاربوہائیڈریٹس میں مختلف مقدار میں شوگر موجود ہوتی ہے۔ان میں سے کچھ کاربو ہائیڈریٹس ہمارا بلڈ شوگر تیزی سے بڑھا تے ہیں۔ انہیں ہم ’’کاربوہائیڈریٹس سیمپل‘‘ کہتے ہیں جیسا کہ چینی اور اس سے بننے والی اشیائ، بیکری کا سامان، فاسٹ فوڈ وغیرہ۔کچھ کاربو ہائیڈریٹس بلڈ شوگر آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں انہیں ہم ’’کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس کہتے ہیں۔ گندم، چاول اور دالوں میں 60 سے 80 فیصدتک کاربو ہائیڈریٹ ہوتا ہے لیکن یہ ہمارے بلڈ شوگر کو تیزی سے نہیں بڑھاتے۔

 سبزیوں میں 70 سے 80 فیصد تک تو پانی ہوتا ہے ، فیٹ اور پروٹین بھی کم ہوتا ہے، تقریباً 7 فیصد تک تھوڑا سا کاربو ہائیڈریٹ ہوتا ہے ،اس لئے سبزیاں بھی ہمارا بلڈ شوگر لیول زیادہ نہیں بڑھاتیں۔ البتہ چند سبزیاں جنہیں ہم Starchy Vegetable کہتے ہیں جو زمین کے اندر پیدا ہوتی ہیں جیسے شکر قندی، آلو وغیرہ میں کاربوہائیڈیٹ تھوڑا زیادہ ہوتا ہے ۔ ان چیزوں کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔

جب ہم کھانا کھاتے ہیں جیسے سبزی، دال، چاول روٹی وغیرہ تو وہ سیدھا ہمارے معدے میں چلا جاتا ہے ۔انٹسٹائین میں چھوٹے چھوٹے ذرات میں بریک ڈائو ن ہوتا ہے اور یہ ذرات ہمارے لیور میں چلے جاتے ہیں۔ لیور میں ’’ری پروسیسنگ ‘‘ ہوتی ہے جہاں شوگر (گلوکوز) بنتاہے اور وہ شوگر بلڈ سرکولیشن کے تحت ہمارے ایک ایک سیل تک پہنچتی ہے تاکہ وہ انرجی پروڈیوس کر پائے اور اس انرجی سے وہ اپنا کام سر انجام دے سکیں۔

جب ہم کاربو ہائیڈریٹ والی چیزیں کھاتے ہیں تو وہ ہماری باڈی میں جا کر شوگر (گلوکوز) میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ شوگر بلڈ میں تو اپنے آپ چلی جاتی ہے لیکن وہ شوگر بلڈ سے سیل میں آٹو میٹک ٹرانسفر نہیں ہو سکتا۔ اس کو ایک کیرئیرکی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کیرئیرانسولین ہے۔ انسولین کا کام ہے کہ وہ بلڈ سے شوگر لے کر سیل میں ڈالتا ہے۔

انسولین کو آپ سیل کے دروازے کی چابی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ بلڈ میں یہ چابی ہوگی تب ہی سیلز کے دروازے کھلیں گے اور تب ہی شوگر سیل تک پہنچ پائے گی۔ ہماری باڈی میں انسولین بنانے کا کام لبلبہ کرتا ہے۔ کاربوہائیڈریٹ کے زیادہ استعمال کے باعث ہم میں سے کچھ لوگوں میں انسولین اس مقدار میں نہیں بن پاتی جتنی ضرورت ہوتی ہے اور گلوکوز بلڈ میں ہی گھومتا رہتا ہے۔ انسان اور جانور شوگر کو سٹور نہیں کر سکتے، صرف پودے ہی شوگر کو سٹور کر سکتے ہیں۔ اسی لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر پھل میٹھے ہوتے ہیں۔

جب شوگر باڈی میں سٹور نہیں ہوتا تو کچھ شوگر تو ہمارے روزمرہ کے کام کاج میں استعمال ہو جاتی ہے لیکن جوفالتوشوگر بچتی ہے تو سیل کے پاس اس کا کوئی استعمال نہیں ہوتا۔ سیل اس فالتو شوگر کو فیٹ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس طرح ہمارا وزن بڑھنے لگتا ہے اور سیلز کیلئے انسولین ریزیسٹنٹس بھی بڑھنے لگتی ہے۔ عموماً آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر موٹے لوگوں میں شوگر(ذیابیطس) کا مرض زیادہ ہوتا ہے۔

ایک عام انسان کو10گرام کاربوہائیڈریٹ کیلئے ایک یونٹ انسولین کی ضرورت ہوتی ہے جیسے جیسے آپ زیادہ کاربوہائیڈریٹ کھاتے ہیں ویسے ویسے انسولین کی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ 100گرام گندم کی ایک روٹی سے حاصل ہونے والی شوگر سیل کے اندر ڈالنے کیلئے تقریباً 3.50یونٹ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے۔

اب اگر ہم زیادہ کار بوہائیڈریٹ والی چیزیں کھائیں گے تو ہماری باڈی میں شوگر کا لیول بڑھے گا اور جب شوگر کا لیول ایک خاص حد سے تجاوز کرے گا تو اسے ہم کہیں گے ہائی بلڈ شوگر یا ذیابیطس۔ شوگر اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے یہ ایک میڈیکل کنڈیشن ہے۔ اگر ہائی بلڈ شوگر مستقل رہے تو اس سے کئی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ جیسے دل کے امراض ، بلڈ پریشر، گردوں کا فیل ہو نا ، بینائی کا کم ہو نا، ہاتھوں اور پیروں کا سن ہو نا وغیرہ۔

شوگر کا مرض ہمارے لائف سٹائل اور کھانے پینے کی عادات سے جڑا ہے ۔شوگر کا مرض’’لائف سٹائل ڈیزیز‘‘میں آتا ہے جسے ہم اپنا لائف سٹائل اور کھانے پینے کی عادات تبدیل کر کے باآسانی کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ کس چیز میں کار یو ہائیڈریٹ زیادہ ہیں اور کس میں کم ہیں اور جس چیز میں کار بو ہائیڈریٹ زیادہ ہیں وہ نہیں کھانی چاہیے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے روز مرہ کھانے میں کاربو ہائیڈریٹ کو کم کرنا ہے کیونکہ جب باڈی میں کم کاربو ہائیڈریٹ جائے گا تو بلڈ میں شوگر بھی کم جائیگاگ اور ہمیں کم انسولین کی ضرورت پڑے گی۔یاد رکھیے بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا سائنس سے زیادہ ایک آرٹ ہے۔

 ڈاکٹر سہیل لائف سٹائل ڈزیزز کے ماہر ہیں، صحت عامہ کے متعلق ان کے کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

Advertisement