آج یوم سقوط ڈھاکہ ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا، 46 سال پہلے آج ہی کے دن پاکستانی قوم نے اپنے وطن کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا گیا لیکن ذمہ داروں کا تعین آج تک نہ ہو سکا۔
لاہور: (دنیا نیوز) سولہ دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا وہ منحوس دن ہے کہ جب بھارت کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی بے وفائی سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک دو لخت ہو گیا۔
بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ مشرقی پاکستان کی مقامی آبادی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری۔
قوموں کی تاریخ میں 24 سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے مگر اتنی کم مدت میں ایک ملک کا ٹوٹ جانا اپنے اندر کئی سوال رکھتا ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنانے کے لئے بھرپور جد و جہد کی تھی وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہو گئے؟
بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان الگ نہیں ہو سکتا تھا مگر بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے خود پیدا کئے تھے۔
المناک پہلو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اس طرح فراموش کیا جیسے 16 دسمبر 1971ء کو ملک نہیں قمیض کا بٹن ٹوٹا ہو۔
46 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔ آج پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اس واقعہ سے ہم نے کیا سیکھا؟