لاہور: (محمد سیف اللہ) خطہء کشمیر، ارض فلسطین کی طرح دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے، پون صدی سے زائد عرصہ کشمیری مظلومین نے بھارتی فوج اور مسلح فورسز کی سنگینوں کے سائے میں گزارا ہے۔
اگست 2019ء سے درندہ صفت نریندر مودی نے دستور ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا، اس دن سے آج تک کشمیر میں بدترین کرفیو ہے، ذرئع ابلاغ پر پابندی ہے، کشمیری پوری دنیا سے ابلاغی طور پر کٹ چکے ہیں، بھارتی فوج کم و بیش دس لاکھ کارندوں کے ساتھ اب ہندوانتہا پسند اور دنیا کی بدترین دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ہزاروں مسلح غنڈے بھی کشمیر میں مسلم کشی میں شریک ہیں، مظلوم کشمیریوں کا قتل عام سے قبل مثلہ کیا جاتا ہے۔
اس بدترین ظلم پر پوری دنیا خاموش ہے حتیٰ کہ حکومت پاکستان بھی عملاً کچھ کرنے کی بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، انگریزی استعمار کے خاتمے سے ہی اس سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے، ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ زخمی اور معذور ہو چکے ہیں، ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں، ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے اور یہ اندوہناک سلسلہ آر ایس ایس کے درندوں کی آمد کے بعد بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
یقیناً جانی و مالی تحفظ اور سیاسی و معاشرتی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں محصور عوام کو گزشتہ 6 سال سے سخت حالات کا سامنا ہے اور بھارت نے اس خطے میں بلیک آؤٹ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ نہیں ہو پا رہی، اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں سینکڑوں نوجوانوں کو شہید وہزاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
معیشت کے جمود کے باعث بھوک اور فاقوں کے حالات پیدا ہو چکے ہیں، کشمیری انتہائی ہمت و استقامت سے بھارتی مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے عالمی برادری کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں، بھارت کی جانب سے کشمیری اراضی پر قبضہ اور ہندوتوا کے پیروکاروں کی کشمیری علاقوں میں منتقلی کے خلاف عوام بدستور مزاحمت کر رہے ہیں۔
بھارت میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے وہاں کی اقلیتیں ہندوتوا نظریے کے زیر عتاب رہی ہیں تاہم مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی ایسی داستان خونچکاں لکھی ہے جسے شاید تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی اور آنے والی نسلیں بھی بھارت کا تذکرہ کر کے منہ نفرت سے موڑ لیا کریں گی۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
تاریخ میں 5 اگست 2019ء وہ سیاہ ترین دن تھا جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کا اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم از کم آئینی طور پر ہی سہی، مکمل آزادی تھی۔
اس آرٹیکل کے خاتمے کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی حقوق جو بھارت ایک طویل عرصے سے سلب کئے ہوئے ہے، قانونی و آئینی طور پر بھی ختم کر دیئے گئے تھے، اس عمل کے پیچھے ہندوتوا کا انتہا پسندانہ نظریہ موجود تھا جس کے تحت ایک جانب تو بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے بنیادی حقوق چھین لئے گئے اور پھر عالمی برادری نے دیکھا کہ اس انتہاپسندانہ نظریے کے منفی اثرات سے بین الاقوامی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔
فروری 2019ء کو پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی سرگرمیاں بڑھا دیں تھیں اور ان ہی اقدامات کو طول دیتے ہوئے یکم اگست سے مختلف علاقوں میں نیم کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا تھا، بظاہر سکیورٹی صورتحال کو اپنے فوجیوں کے ذریعے قابو میں کرنے کے بعد بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا، یہ اعلان ہوتے ہی کشمیری عوام سمندر کی طرح گلیوں محلوں، سڑکوں چوراہوں پر جمع ہو کر فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔
بھارت نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا، بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کا احتجاج سے روکنے کی کوششیں کر رہا تھا مگر اس میں ناکام رہا، کشمیری کسی شہر میں بھی بھارتی فوج کو خاطر میں نہیں لارہے تھے، بھارتی حکومت کی جانب سے فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کا نظام بند کر دیا گیا، ٹرانسپورٹ مکمل طور پر روک دی گئی، کاروبار زندگی ختم کر دیا گیا، غرض یہ کہ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر کے گلیوں میں فوجی اہلکار تعینات کر دیئے گئے۔
کشمیر تیرا حسن ہوا درد کی تصویر
بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر مسلط کئے گئے اس لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ذریعے بیرونی دنیا سے کشمیریوں کا رابطہ ختم کر دیا گیا تھا، کشمیر کی دائیں اور بائیں بازو کی مقامی قیادت کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا، ان اقدامات کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہوگئی، ہسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھاخ مظاہرین کو روکنے کیلئے بغیر کسی روک ٹوک کے گولیاں برسائی جا رہی تھیں جس سے جانی نقصان بڑھتا گیا، 5 اگست 2019ء کے بعد سے اب تک کے دوران سیکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں شدید زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ بھارتی افواج کی جانب سے کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گن کے استعمال کے ذریعے انہیں بینائی سے محروم کرنے کے مذموم منصوبے پر کام جاری رہا جس میں سیکڑوں نوجوان اور معصوم بچے بصارت سے محروم ہوگئے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد 446 افراد کو پیلٹ گنز سے نشانہ بنا کر زخمی کیا گیا جن میں سے تقریباً دو سو افراد کی آنکھیں شدید زخمی ہوئیں جبکہ سیکڑوں افراد آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوئے۔
کشمیری خواتین اور بچے بھی قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہوئے ہیں، قابض بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے، اْن کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح مردوں کے سامنے اْن کی عورتوں کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے، یہ ایک نفسیاتی گھاؤ ہے جس کے ذریعے کشمیری مرد و خواتین کوشدید اذیت پہنچائی جاتی ہے، ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں، ظلم و ستم، کریک ڈاؤن، جعلی مقابلوں، گمشدگیوں، بہیمانہ تشدد اور قتل و غارت کے باوجود کشمیری خواتین پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں۔
آرٹیکل 370 کا خاتمہ سیاہ قوانین کے باب میں ایک اور اضافہ تھا جس کے ذریعے بھارت نے وادی میں لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کر کے کشمیر کو بیرونی دنیا سے کاٹ دیا اور عالمی مانیٹرنگ تنظیموں کا بھی سری نگر میں داخلہ روک دیا، اس دوران بھارتی فوج کا سرچ آپریشن کے نام پر گھر گھر چھاپے مارنا روزانہ کا معمول بن گیا جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہیں تھا کہ گھریلو خواتین کی آبرو ریزی کی جائے اور بچوں کا جنسی استحصال کیا جائے، مقامی اور عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کرفیو کی سنگین صورت حال میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری خواتین سے زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگست 2019ء کے بعد سے بڑھتے ہوئے مظالم سے کشمیری بچوں پر کیا کچھ بیت رہی ہے اس کی ایک تکلیف دہ مثال سوپورہ علاقے کے اس 3 سالہ بچے کی ہی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے دادا کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے گولیاں مار کر شہید کیا اور پوتا خون سے لت پت لاش کے سینے میں بیٹھ کر رو رہا تھا۔
کشمیری بچے ایسے ہی دردناک مناظر دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں جس سے انہیں شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بھارتی فوجیوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے اور پیلٹ گنوں سے زخمی و نابینا ہوتے معصوم بچے اور بچیاں جس درد کو اپنے سینوں پر سمیٹے جی رہے ہیں اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔
لاک ڈاؤن کے دوران بھی کشمیروں کو اپنے گھروں میں چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا اور بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے آئے روز محاصروں اور گھروں میں تلاشی کا سلسلہ جاری رہا اور اکثر موقعوں پر عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنزکے نام پر نہتے کشمیروں کو شہید کیا گیا، اس پر مزید ظلم یہ کہ شہیدوں کی میتیں لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی تھیں جس کے ردعمل میں عوام احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آتے تھے، عوامی احتجاج کو قانون کی خلاف ورزی گردان کر معصوم شہریوں پر بھارتی فوجی اہلکار چڑھ دوڑتے تھے اور کشمیروں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتے تھے جو کہ اب بھی جاری ہے۔