(ایرک ایس مارگولس / روزنامہ دنیا) امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بالکل درست کہا تھا کہ امریکہ کے مخالف ہونے کے مقابلے میں اس کا حلیف یا اتحادی ہونا اکثر زیادہ خطرناک ہوتا ہے ، یہ بات کہہ کر کسنجر نے ایک افسوسناک سچائی کا اظہار کیا تھا، اب پاکستان جو حالیہ تاریخ کے آغاز ہی سے امریکہ کا وفادار حلیف ہے کسنجر کی بیان کردہ اس تکلیف دہ حقیت کا تازہ شکار بن گیا ہے۔
اب یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلمانوں سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ازلی نفرت ہے ( یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ ٹرمپ کے دل میں مسلمانوں کیخلاف نفرت کب اور کہاں پیدا ہوئی اور اس کی نوعیت کیا ہے )۔
پاکستان سے ٹرمپ کی یہ نفرت اس وقت پوری طرح کھل کر سامنے آگئی جب انہوں نے اچانک ہی یہ حکم جاری کردیا کہ ان کے ملک کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی تقریباً900 ملین ڈالر کی امداد فوری طور روک دی جائے ۔ یہ اعلان کرتے ہوئے ترمپ نے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ مسلسل جھوٹ بول کر امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے ، کیونکہ بقول ان کے پاکستان ان طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کررہا ہے جو افغانستان میں تعینات امریکی قابض فوج کیخلاف جنگ کررہے ہیں، واضح رہے کہ طالبان کو ا مریکہ میں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
امریکہ کو افغانستان میں جو ہزیمت اٹھانا پڑرہی ہے اس کے بعد نہ صرف امریکہ کے جنرل صاحبان بلکہ امریکی محکمہ دفاع کے عہدیداران اور سیاستدانوں نے یہ رویہ اپنالیا ہے کہ اپنی اس ناکامی کی ذمے داری جو بھی نظر آئے اس کے سرتھوپ دی جائے ، اب ان کی نگاہ پاکستان پر ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ پہلے بھی دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگتتا رہا ہے۔
امریکہ کا دوسرا ہدف حقانی گروپ ہے ، امریکہ کو یقین ہے کہ افغانستان میں اس کی اکثر فوجی ناکامیوں کاذمے دار حقانی گروپ ہی ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حقانی گروپ کی جنگی سرگرمیاں نسبتاً زیادہ شدید نہیں ہوتیں اور ان کی جنگی کارروائیوں کا دائرہ بھی محدود ہوتا ہے ، میں اس گروپ کے ضعیف العمر بانی حقانی کو 1980 کے زمانے میں جانتا تھا، اس وقت امریکی سی آئی اے اور پاکستان (سابقہ) سوویت یونین کی فوج کو افغانستان سے نکالنے کیلئے کوششیں کررہے تھے ، اگر یہ بات نہیں تھی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد کیوں دی تھی؟
2001 میں امریکہ نے اپنے فوجیوں کو افغانستان میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کا مقصد پشتون مزاحمتی تحریک طالبان کو اس طرح تباہ کرنا تھا کہ وہ جڑ سے ہی ختم ہوجائے یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ریگن نے انہی پشتون جنگجوئوں کو ‘‘ آزادی کے سپاہی ’’ قرار دیا تھا، لیکن جب مغربی طاقتوں نے ان کے ملک پر قبضے کی کوشش شروع کی تو ‘‘آزادی کے یہی سپاہی ’’ مغرب کی نظر میں دہشت گرد قرار پائے۔
لیکن افغانستان میں جو ایک لینڈ لاک ملک ہے (یعنی وہ چاروں جانب سے خشکی میں گھرا ہوا ہے ) امریکی فوجیوں کو داخل کرنا ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا، افغانستان میں تعینات کیے گئے امریکی فوجیوں کو رسد پہنچانے کا ذریعہ بنیادی طور پر کراچی کی بندرگاہ تھے، اس کے بعد طویل فاصلے طے کرنے اور پہاڑی راستوں سے گزرنے کے بعد یہ سامان افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں تک پہنچایا جاتا تھا، یہ راستہ اس لیے اختیار کرنا پڑا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر رسد کو بذریعہ ہوائی جہاز افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں تک پہنچانے پر بہت زیادہ لاگت آتی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک گیلن گیسولین وہاں بذریعہ طیارہ پہنچانے پر 400 ڈالر خرچ کرنے پڑتے، اسی طرح افغانستان میں رکھے گئے ایک امریکی جنگی طیارے کی صرف ایک پرواز پر خر چ 6 لاکھ ڈالر بنتا تھا، یہ خرچ ناگزیر تھا اس لیے کہ جنگی طیارے کو آپریشن کے قابل رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً پرواز کرتا رہے ، یہ بات تسلیم کیے بناچارہ نہیں کہ اگر افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو 2 4 گھنٹے فضائی تحفظ فراہم نہ کیا جاتا تو ان کی فوری شکست یقینی ہوجاتی۔
یہاں یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے بھرپور تعاون کے بغیر امریکہ کیلئے اپنے فوجیوں کو افغانستان میں داخل کرانا کسی طور بھی ممکن نہیں تھا، پاکستان نے پہلے تو امریکی فوجیوں کو افغانستان میں داخل ہونے کیلئے راہداری کی سہولت دینے سے انکار کیا لیکن پھر اس نے امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے خود مجھے بتایا کہ ‘‘ امریکہ نے میرے سر پر بندوق تان لی تھی ،مجھے کہا گیا کہ ہمارے فوجیوں کو پاکستان میں داخل ہونے اور پھر یہاں سے افغانستان میں داخل ہونے دو، ورنہ ہم تمہارے ملک پر بمباری کرکے تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیں گے ’’ اس کے عوض امریکہ نے 33 ارب ڈالر دیئے ، اس کا مقصد یہ تھا کہ کراچی سے افغان شہر بگرام تک زمینی اور فضائی راستے امریکی فوجیوں کیلئے کھلے رہیں، 2011 میں امریکی جنگی طیاروں کی کارروائی سے تقریباًدو درجن پاکستانی فوجی جاں بحق ہوگئے ، اس واقعے پر پاکستان نے مختصر وقت کیلئے امریکی فوجیوں کو فراہم کی گئی راہداری کی سہولت معطل کردی لیکن جلد ہی اسے بحال کردیا،شاید پاکستان دوبارہ اس سہولت کو معطل کردیتا اگر اسے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ امریکہ اسے بھی ‘‘دشمن ملک’’ قرار دے دیگا۔
ٹرمپ اور ان کے مشیر یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ افغانستان میں اس کے اہم سکیورٹی مفادات ہیں، پاکستان میں تقریباً 3 کروڑ پشتون ہیں، پاکستان کی مسلح افواج میں ان کی غالب اکثریت ہے ، ان کے علاوہ تقریباً 14 لاکھ پشتون پاکستان کے شمالی علاقوں میں بطور مہاجر آباد ہیں، پاکستان محسوس کرتا ہے کہ اگر اس کی بھارت سے جنگ ہوئی تو ایسی صورت میں اس کیلئے افغانستان کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔
امریکہ کی مقرر کردہ افغان حکومت اپنی ہر ناکامی کی ذمے داری پاکستان پر عائد کردیتی ہے ، اس کی خفیہ ایجنسیاں مسلسل پاکستان کے بارے میں یہ جھوٹا پراپیگنڈا کرتی رہتی ہیں کہ وہ دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انگریزوں نے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جو سرحد بزور طاقت بنادی تھی اس کے قریب بسنے والے پشتون قبائل 19 ویں صدی سے مسلسل حالت جنگ میں ہیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ان قبائلیوں کیخلاف زہریلی گیس استعمال کرنے کی منظوری دے دی تھی، فقیر ایپی نے جو اس زمانے میں مشہور قبائلی رہنما تھے انگریزوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ اور ان کے حامی پہاڑوں سے اتر کر پشاور چھاؤنی میں موجود انگریز فوجیوں کو سبق سکھا دیں گے ۔آج کل امریکی محکمہ دفاع کے حلقے یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ امریکہ طالبان کے ان خفیہ ٹھکانوں پر جو پاکستان میں بنائے گئے ہیں بمباری شروع کرسکتا ہے ،(حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقامی پشتون آبادی کی بستیاں ہیں)امریکی حلقے یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ بمباری کے علاوہ قبائلیوں سے جنگ کرنے کیلئے وہ ان علاقوں میں اپنے فوجی بھی اتارسکتا ہے ، اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغان جنگ جو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے مزید طوالت کا شکار ہوجائے گی۔
اس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ یہ تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں ہے کہ اسے افغانستان میں فوجی شکست ہوئی ہے ۔یہ بہت اہم بات ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے یا انہیں تباہ کرنے کی امریکی خواہش ابھی تک موجود ہے ، پاکستان کے شمالی علاقے میں دہشت گردوں کے نام نہاد ٹھکانوں پر امریکی حملوں کا مطلب ہوگا کہ پاکستان کے جوہری اڈوں اور جوہری آلات کی سٹوریج کے مقامات پر امریکی حملوں کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بھارت اور اسرائیل کافی عرصے سے امریکہ پر زورد ے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے جوہری ڈھانچے پر حملہ کرکے اسے تباہ کردے ، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکہ نے پاکستان کیخلاف کوئی بڑی کارروائی کی تو وہ چین کے اور بھی زیادہ قریب آجائے گا اور خطے میں چینی اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔
یہ بات ظاہر ہے کہ چین اس بات کو کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ امریکہ بزور طاقت اسکے پرانے حلیف پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کردے ، کیونکہ امریکہ کے برعکس چین اپنے پرانے دوستوں کو فراموش نہیں کرتا ۔