لاہور: (اکانومسٹ) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے خشک دودھ کے پیکٹ پر تحریر اجزا کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے سر کو جنبش دی، پھر بینچ سے کچھ دور کھڑے اس صنعت کے 20 وکلا کو اشارے سے بلایا۔ ان کا شیڈول بہت مصروفیت والا ہے ۔ کچھ مہینوں سے ’’صاف ہوا، صاف پانی اور خالص دودھ‘‘ پاکستان میں عام کرنے کے مشن نے انہیں تھکا دیا ہے، 64 سالہ چیف جسٹس نے ہفتے کے روز ’’سوموٹو ‘‘ کیسز کی سماعت کی۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کمرہ عدالت میں ایک ہجوم جمع ہے۔ خشک دودھ کے بارے میں وہ حکم دیتے ہیں کہ فوراَ سے پہلے اسے نئے لیبل لگائے جائیں۔
دودھ کے بعد وہ فیکٹری مالکان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جو کہ مبینہ طور پر زہریلے صنعتی فضلے سے دریا آلودہ کر رہے ہیں۔ سفید پگڑی والا ایک بوڑھا دیہاتی آگے بڑھ کر انصاف کیلئے دہائی دیتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کہتے ہیں ’’میں اپنے بچوں کو زہر پلانے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘۔ جسٹس میاں ثاقب نثار پاکستان کے پہلے مقبول جج نہیں۔ 2008 میں افتحار محمد چودھری نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی برطرفی میں معاونت کر کے سپریم کورٹ کا تابع فرمان ہونے کا تاثر یکسر تبدیل کر دیا جو کہ مختلف فوجی بغاوتوں میں ربڑ سٹیمپ کے کردار کی وجہ سے بن گیا تھا۔ بعدازاں اپنے اختیارات کے استعمال میں افتحار محمد چودھری اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے ایسے حکومتی امور میں بھی مداخلت شروع کر دی جو کہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ، جیسے کہ چینی کی قیمت طے کرنا۔ ان کے چار جانشینوں نے البتہ محتاط رویہ اپنایا، وہ افتحار محمد چودھری کے غیر ملکی فرموں سے حکومت کے معاہدے منسوخ کرنے پر 12.5 ارب ڈالر کے ممکنہ بوجھ کے دباؤ میں رہے۔
رواں سال چیف جسٹس نے 30 سوموٹو کیسز کی سماعت شروع کی، ایک کیس میں میڈیکل کا طالب علم جو کہ 3000 ڈالر فیس بھرنے سے قاصر تھا، کی مالی حالت پر جذباتی ہوگئے اور کہا کہ سپریم کورٹ اس کی فیس ادا کریگی۔ انہوں نے کچھ اہم امور جیسے چکن فیڈ کے معیار کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی، جبکہ دوسری جانب پاکستانی عدالتوں میں 30 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس کے حامی کہتے ہیں کہ انتظامیہ کے نکمے پن کی وجہ سے سپریم کورٹ کو مجبوراَ مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ نجی میڈیکل کالجوں کے خلاف ان کے اقدامات کی وجہ سے ڈاکٹروں کی بڑھتی تعداد ایک حد تک لائی جا سکے گی۔ بینک ملازمین ماہانہ پنشن 13 سے بڑھا کر 70 ڈالر کرنے پر چیف جسٹس کے شکر گزار ہیں۔ اس الزام کے جواب میں کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے مختلف پبلک سروسز کی زبوں حالی کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک صحافی سے کہا، ’’جب چاہیں مجھے کہہ سکتے ہیں کہ اپنی حد پار کر رہا ہوں، راولپنڈی کے عام شہری کو صاف پانی کیوں نہیں ملنا چاہیے؟‘‘۔
رواں موسم گرما میں عام انتخابات ہو رہے ہیں، ان کے ہسپتالوں کے اچانک دوروں کی کوریج حکمران مسلم لیگ ن کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ ان کا فوکس اس پارٹی کا سیاسی گڑھ پنجاب ہے۔ وہ وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر حکومت نے تعلیم اور صحت کی بہتری پر توجہ نہ دی تو وہ اورنج لائن منصوبہ بند کر دینگے، جو کہ لاہور کے نئے میٹرو سسٹم کا پہلا فیز ہے بیرسٹر جنید جہانگیر کے مطابق چیف جسٹس اپوزیشن کا خلا پر کر رہے ہیں۔ اصل اپوزیشن عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کر رہی ہے، چیف جسٹس کے فیصلوں کی تائید کرنیوالی اس پارٹی کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کے سیاستدانوں کو سپریم کورٹ کے طرز عمل پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وکیل بابر ستار کے مطابق عدالت جمہوریت کیلئے جگہ کم کر رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 کی شرائط کہ سیاستدان کو دیانتدار اور متقی ہونا چاہیے، کی بنیاد پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر جو نظیر قائم کی گئی ہے، اس کی زد میں کوئی بھی آ سکتا ہے۔
2 مارچ کو چیف جسٹس نے دوسرا کام یہ کیا کہ وہ قانون کالعدم قرار دیدیا جس کے تحت نواز شریف پارٹی کے سربراہ بن سکتے تھے۔ اس قانون کی منظوری نواز شریف کیلئے ہی دی گئی تھی ۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں لکھا، ’’آرٹیکل 62 پر عمل درآمد سے ریاستی عہدوں تک ایسے افراد کی رسائی روکی جا سکتی ہے جوکہ شخصی خامیوں کے حامل ہیں‘‘۔ یہ باتیں فوج کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ فوج کی سرپرستی میں ہی آرٹیکل 62 آئین کا حصہ بنایا گیا تھا تاکہ سول سیاستدان کنٹرول کئے جا سکیں۔ ن لیگ کے رہنما اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ عدلیہ فوج کی آلہ کار ہے۔ دونوں ادارے اکثر ایک دوسرے کی برملا سپورٹ کیلئے تیار رہتے ہیں۔ افتحار محمد چودھری کے برعکس میاں ثاقب نثار نے ان امور پر کوئی بات نہیں کی جو اعلیٰ فوجی قیادت کو نالاں کرے، جیسے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ۔ رواں ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے متنبہ کیا کہ پارلیمنٹ کیساتھ تنازع کی صورت میں فوج عدلیہ کی پشت پر کھڑی ہو گی۔
ن لیگ جوکہ اس وقت جمہوریت کی چیمپئن بن رہی ہے ، نواز شریف کی برطرفی سے قبل اس نے جمہوریت کے فروغ کیلئے کچھ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال سے زائد عرصہ میں نواز شریف صرف چھ بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں شامل ہوئے۔ وکیل اسد رحیم خان کے مطابق سیاستدانوں نے خود عدالتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں پر معاملات چھوڑنے کے بجائے اپنے حریفوں کو نااہل قرار دلانے کیلئے باقاعدگی سے درخواستیں دائر کر رہی ہیں۔ سویلین کنٹرول کے تابع ہونے سے صاف انکار کے باوجود سیاستدانوں میں فوج کے حامیوں کی کمی نہیں۔ دو اطراف سے جمہوریت پر حملے مزید بدتر ہو سکتے ہیں۔ کرپشن کے ٹرائل میں نواز شریف کو جلد جیل جانا پڑ سکتا ہے ، یوں دونوں اداروں کے سب سے بڑے دشمن کے پاؤں بازو بری طرح باندھ دیئے جائینگے۔ آئندہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مخلوط حکومت بنا کر مسلم لیگ ن کو اقتدار سے باہر کر سکتی ہیں۔ کامیاب کوئی بھی ہو، ایک بات بڑی واضح ہے کہ ان کی گردن پر ایک بوٹ اور لگنے کیلئے عدالتی ہتھوڑا ہر وقت ان کے سر پر ہوگا۔