بدلتے ہوئے حالات میں جنرل باجوہ کی اسٹریٹجی کیا ہے؟

Last Updated On 16 April,2018 10:31 am

لاہور: (وجاہت ایس خان) 2014 کے موسمِ گرما کی ایک حرارت بھری شب عسکری نگر راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز … پاک فوج کے برطانوی دور کے گھر میں پاکستان کے پندرہویں سپہ سالار راحیل شریف، مونچھوں والے پوسٹر بوائے چیف آف آرمی اسٹاف، کے گرد مداحوں نے ہجوم کیا ہوا تھا۔ وہ یومِ دفاع تھا۔ فوج پرویز مشرف دور کے سیاسی بھدے پن اور کیانی دور کی دہشت گردی کے خطرات کی پابندیوں سے دھیرے دھیرے نکل رہی تھی۔

کھلے عام پریڈ … جہاں چند منتخب افراد چوٹی کے منصب داروں کے ساتھ گھل مل سکتے ہیں، حب الوطنی سے معمور ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں اور شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کر سکتے ہیں … ایک عشرے سے زیادہ عرصہ مکمل بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع کی جا رہی تھی۔ پریڈ ختم ہو چکی تھی لیکن راحیل شریف کو ابھی اپنے آپ کو منوانا تھا۔ ان کی ذہین ٹیم مقبولِ عام شخصی تاثر تراشتے ہوئے، جو ملک … اور خود پاک فوج … کے سب سے بڑے کینوس سے بھی بڑا ہو گیا تھا، ایک عام افسر کو تعلقاتِ عامہ کا کرشمہ بنا رہی تھی۔

وہاں سے چالیس منٹ کے کار کے سفر کی دوری پر پہاڑیوں پر بسے اسلام آباد میں حزبِ اختلاف کے سب سے زیادہ توانائی سے بھرپور رہنما عمران خان انتخابی اصلاحات کروانے کے لیے جاری دھرنے کے وسط میں تھے، جس کے بارے میں انھیں توقع تھی کہ ہزاروں افراد کو مائل کر کے تحریر چوک جیسی صورتِ حال کا باعث بنے گا اور برسرِاقتدار وزیرِ اعظم نوازشریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دے گا۔

وقت کڑا اور موسم جانب دار تھا۔ جی ایچ کیو کے چوٹی کے جرنیل اس امر پر بٹے ہوئے تھے کہ ایک قانونی حکومت کا ساتھ دیا جائے، جو فوج سے نفور ہے، یا جدوجہد کرتی حزبِ اختلاف کا ساتھ دیا جائے، جس کی تائید و حمایت تو بہت سے لوگوں نے کی تھی لیکن ووٹ نہیں دئیے تھے۔ راحیل شریف کے گرد موجود ہجوم چھَٹا نہیں تھا اور سیلفیوں اور تحسین و ستائش کا سلسلہ جاری تھا، ایسے میں ایک دراز قامت، چوڑے چکلے شانوں والا شخص، جس نے برسوں سے انکسار و عاجزی سے نچلے رینک کے فوجیوں کی بات سننے کی عادت اپنا لی تھی، تھوڑی دور اکیلا کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ کمر پر رکھے اور دوسرے ہاتھ میں تھامی کمانڈ کین سے ہولے ہولے اپنی ٹانگ تھپتھپاتے، وہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاویدباجوہ تھے، جو اُس وقت پاکستان کی سب سے بڑی عسکری فارمیشن ایکس کور کے کمانڈر تھے۔

جی ایچ کیو کے پریڈ گراؤنڈ میں موجود دوسرے افراد کے برخلاف جنرل باجوہ، راحیل شریف کا کسی مقبولِ عام شخصیت جیسا نظارہ نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس کے بجائے وہ عین سامنے سیاہ گرینائٹ کی یادگارِ شہدا … شہدا کی عظیم عسکری یادگار …کی طرف تکے جا رہے تھے۔ اس شب اور آنے والے مہینوں میں جنرل باجوہ کے سوچ میں ڈوبے ہونے اور الگ تھلگ رہنے کا ایک سبب تھا۔ وہ جی ایچ کیو کے اُن چند افراد میں سے ایک تھے جنھوں نے اسلام آباد میں برپا ہونے والی شہری ابتری کے دوران اساطیری تاثر کی حامل 111 بریگیڈ کے اسلحے اور ارادوں کا دھیان رکھتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل اور منتخب حکومت کو قائم و برقرار رکھنے کا مشورہ دینا تھا۔ اگرچہ انھیں غیر اہم بناتے ہوئے ایکس کور کے بعد تربیتی حکمتِ عملیاں ترتیب دینے کی سادہ سی ڈیسک جاب پر متعین کر دیا گیا لیکن انھوں نے چیف کے سیکرٹریٹ کو مقبول عام شخصیات جیسی مشہوری دئیے جانے کی اپنی مدیرانہ ناپسندیدگی سے اپنے قریبی دوستوں اور رفقائے کار کو آگاہ کر دیا تھا۔

آخرِ کار ان کے جمہوریت کا حامی ہونے کی ساکھ نے انھیں چوتھا ستارہ، ملک کے سب سے طاقتور منصب کی کلید، حاصل کرنے میں مدد دی۔ اب پاکستان کے سب سے طاقتور منصب پر فائز ہونے اور غیر سیاسی ہونے کی خوش گواریت عطا کرنے والی ساکھ قائم کرنے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ بعد ملک کے چوٹی کے فوجی کمانڈر سیاسی تنازع کی کش مکش میں بلا ارادہ پھنس گئے ہیں۔اب جبکہ اسلامی جمہوریہ، تازہ عائد کردہ اور مزید متوقع پابندیوں کے باعث واشنگٹن کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے باوجود کسی مارشل لا یا عدالتی مداخلت کے بغیر تیسرے تاریخی عام انتخابات کا انعقاد کروانے والی ہے تو ایسا لگتا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی 600,000جوانوں پر مشتمل فوج … جسے سب ملک کا طاقتورادارہ مانتے ہیں … شاذ نوعیت کی پس قدمی کی حالت میں ہیں لیکن تیزی سے بحال ہو رہے ہیں۔

‘‘باجوہ ڈاکٹرائن’’، قومی سلامتی کا ایک منصوبہ جسے راج عہد کی بلوچ رجمنٹ کے ستاون سالہ انفنٹری مین سے موسوم کیا گیا ہے، شدید بحث و تمحیص کا موضوع رہی ہے جو پاکستان کے غیر عسکری بمقابلہ عسکری خلا کی عکاس ہے۔ یہ بحث ایک ایسے وقت چھڑی ہے جب تحرک سے بھری جماعتی سیاست اور ملک کی فعال تر ہوتی عدلیہ اور برسرِاقتدار … لیکن فوج مخالف … شریف خاندان اور بیوروکریسی اور میڈیا میں اس کے اتحادیوں کے مابین ٹکراؤ جاری ہے۔

گذشتہ جولائی میں سابق وزیرِ اعظم نوازشریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے بد عنوانی کے مقدمے میں اقتدار سے ہٹائے جانے کو فوج کی طرف سے کروایا جانے والا اقدام تصور کیا گیا تھا، ایک الزام جس کا چرچا شریف کیمپ کر رہا ہے لیکن جسے فوج … جو برطانیہ سے آزادی کے بعد سات میں سے تین عشرے پاکستان پر براہِ راست حکومت کر چکی ہے … پُرزور انداز میں مسترد کرتی ہے۔

بہرحال سولہ مہینے پاکستان کے ہنگامہ خیز میڈیا کی چکاچوند سے گریز کرنے کے بعد جنرل باجوہ نے درست نشانہ باندھتے ہوئے نیا اقدام اٹھایا اور مارچ کے اوائل میں کئی صحافیوں کے ساتھ گفت و شنید کی جسے وسیع پیمانے پر چھاپا اور نشر کیا گیا۔ نہ تو اس ملاقات کا خاص ہونا اور نہ ہی اس کے مواد کا افشا نہ کیا جا سکنا رکاوٹ بن سکا۔ جلد ہی ایک کے بعد ایک کالم نویس نے صاف گو اور قدرے شگفتہ گفتار، چار ستاروں والے جنرل کی … جن کی تعلقات عامہ مہم نے ان کا ایک ایسے فوجی کا تاثر تخلیق کیا ہے جسے سیاست سے دلچسپی نہیں اور جو اسلام آباد کے پُرسکون ماحول کے بجائے قبائلی پٹی کے محاذ پر زیادہ سکون محسوس کرتا ہے … باتیں بھرپور تفصیل سے بیان کر دیں۔

بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا، افغانستان کے حوالے سے امریکا کا دباؤ خاطر میں نہ لانا، جہادیوں کو انتخابی سیاست کے مرکزی دھارے میں لانا، کمزور ہوتی معیشت، آئین میں موجود خلا، شریف خاندان سے متعلق خطرات سے صورتِ حال، کابینہ کے بعض خاص ارکان کے لیے منظوری کے اشارے اور عدلیہ کے لیے فوج کی بھرپور تائید و حمایت … اداروں کے ٹکراؤ والے پاکستان کے تمام سیاسی اعتبار سے آتش بداماں موضوعات … کو ایک حد تک جانچا تولا گیا اور وسیع پیمانے پر ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کے نام سے اس کا تذکرہ کیا گیا۔

اور پھر سامنے آئے نتائج۔ اداریوں نے نامنظوری کا شور برپا کر دیا۔ سوشل میڈیا پھٹ پڑا۔ پاکستان کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فوج کے ناقدین اچھل کر حرکت میں آ گئے۔ خالص فوجی، سیدھی بات کرنے والے جنرل باجوہ کو ناموزوں حد تک جانب دار بنا کر پیش کیا جانے لگا اور اپنی حد سے باہر قدم رکھنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

تاہم ایک ایسے ملک میں جہاں فوج عوامی حمایت کی عادی ہے (2017 کے گیلپ پول کے مطابق 79 فی صد پاکستانی فوج کو پسند کرتے ہیں) جب جنرل باجوہ کی بھارت سے متعلق حکمتِ عملی … کشمیر کا مسئلہ حل کرنا لیکن نفرت ، دہشت یا جنگ کے ذریعے نہیں … زیرِ بحث لائی گئی اور اسے سراہا گیا، تقریباً متوقع طور سے ، تب فوج نے بھارت کے ڈیفنس اتاشی اور جنوبی بلاک کے دوسرے افراد کو 23 مارچ کو یومِ پاکستان کی پریڈ میں مدعو کیا، ایک ایسی فوج کی طرف سے پہل جو بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑ چکی ہے۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ میجر جنرل اسفند یار پٹودی نے، جو جنرل باجوہ کے ساتھ کئی عشرے خدمات انجام دے چکے ہیں، واضح کیا، ’’چیف سیاست کا گہرا فہم رکھتے ہیں۔ انھوں نے خطے سے متعلق حکمتِ عملی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے اور خطے سے باہر کے رفقائے کار کے بجائے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر اس فہم کا اطلاق عمدگی سے کیا ہے۔

یہ امر غیر معمولی ہے کہ ’’ڈاکٹرائن‘‘ کے سامنے آتے ہی میڈیا کے لبرل عناصر نے جنرل باجوہ کی واقعتاً تعریف کی۔ ترقی پسند کالم نویس سہیل وڑائچ نے جنرل باجوہ کا شکریہ ادا کیا کہ آخرِ کار وہ ’’ستر سالہ انتہا پسندانہ شاونزم‘‘ تَرک کر کے پاکستان کو ’’ہمسایوں کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی پر توجہ مرکوز کرنے والی حقیقت پسندی کی ڈاکٹرائن‘‘ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ لیکن ہر کوئی قائل نہیں ہوا۔

بہت زیادہ مسلح ، خوب تربیت یافتہ انتہا پسند ریڈیکل عناصر کو انتہا سے واپس لاتے ہوئے … قبل اس کے کہ وہ زیرِ زمین چلے جانے پر مجبور ہو جائیں یا اُس ریاست کے ساتھ لڑائی پر مجبور ہو جائیں جو اُن کے متعلق سخت کارروائیاں کر رہی ہے … ’’مرکزی دھارے میں لانے ‘‘ کے جنرل باجوہ کے نظریے پر سوشل میڈیا نے بائیں بازو کی قیادت میں کڑی تنقید کی۔آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسفندیار پٹودی نے کہا، ’’ریڈیکل افراد کو مرکزی دھارے میں لانے سے اس مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں کو سیاست کے میدان میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ریڈیکل خیالات کے حامل افراد کو سیاسی اظہار کی اجازت دیا جانا ضروری ہے ، جو روکے جانے کی صورت میں خیالات کے پُر تشدد اظہار کی طرف جا سکتے ہیں۔‘‘

فوجی اقتدار کی پاکستان کی روایت کے پیشِ نظر بعض لوگوں کو فکر لاحق ہے۔ ایک ٹیلی ویژن اینکر نے، جنھیں ملاقات کے لیے جنرل ہیڈکوارٹر بھی مدعو کیا گیا تھا، اپنا نام مستور رکھنے کی شرط پر کہا، ’’ایسا محسوس ہوا جیسے ہم نئے بادشاہ سے مل رہے ہوں۔ ان کی جسمانی حرکات اور اعتماد سے محسوس ہوا کہ وہ ایسے بادشاہ ہیں، جو اہم اصلاحات میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے بعد بھی کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں۔‘‘ بہرحال جنرل باجوہ کے ترجمان ان کی اس ساکھ کو پکا کر رہے ہیں کہ وہ ایک غیر سیاسی فوجی ہیں جن کے کوئی عزائم نہیں جب کہ فوج یقین دلاتی رہتی ہے کہ عام انتخابات جو موسمِ گرما کے اواخر میں متوقع ہیں، وقت پر ہوں گے۔

اگرچہ وہ ایسے چند لیفٹیننٹ جنرلوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی رائے تبدیل نہیں کی اور 2014 کی طوالت پکڑ جانے والی افراتفری کے دوران اپنے پیش رَو کو اقتدار نہ سنبھالنے کا مشورہ دیا تھا، تاہم ملک کے جمہوری عمل کا ضعف اور سیاسی اعتبار سے حساس وقت پر فوج کے سربراہ کی ڈاکٹرائن کا سامنے لایا جانا پاکستان کے مؤقر ترین اخبار ڈان کے ایک حالیہ اداریے میں بالخصوص تنقید کا باعث بنا۔

’’جمہوریت کی جانب منتقلی کا عمل تیسرے مسلسل بروقت انتخاب کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن جمہوری پروجیکٹ واضح طور سے کسی قسم کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس نوع کے غیر یقینی پن کی فضا میں فوج کے کسی سربراہ کے لیے یہ امر سود مند نہیں کہ اس سے ایسے بیانات منسوب کیے جائیں جن کا جمہوری حلقوں میں یہ مفہوم لیا جا سکے کہ یہاں جمہوریت کے قانونی جواز اور جوہر پر سوال کیا جا رہا ہے ۔

‘‘چوں کہ تنازع قابو سے باہر ہو چکا تھا، اس لیے فوج کو وضاحت پر مجبور ہونا پڑا کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا تعلق صرف سلامتی کے امور سے ہے … ملک کی حکمرانی سے نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کے فوج کے روایتی میدان سے زیادہ سروکار ہے …اور یہ بالکل بھی سیاسی نہیں۔ بہرحال میجر جنرل اسفندیار پٹودی کا کہنا تھا کہ تنقید جنرل باجوہ کا راستہ نہیں روک سکتی اور وہ فوج کے سربراہ کے عزائم کے حوالے سے واضح تھے ۔آرمی چیف کے ساتھ کئی مقامات پر خدمات انجام دینے والے میجر جنرل اسفندیار پٹودی نے کہا، ’’وہ پالیسی سازوں کو اپنی رائے دھیرج اور بالغ نظری کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور وہ شخصی شان و شوکت یا شخصی نمود و نمائش کے خواہاں نہیں۔ پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں اور کسی نہ کسی کو تو مشکل سوال دریافت کرنا ہیں۔ جنرل باجوہ وہی سوال دریافت کر رہے ہیں۔‘‘